کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 598
مذکورہ روایت ان الفاظ میں بھی زبان زد ہے: ((من زار قبری حلت لہ شفاعتی))۔ ۵:… ((من جاء نی زائرا لا تعملہ حاجۃ إلا زیارتی کان حقا علیَّ أن أکون شفیعا لہ یوم القیامۃ)) ’’جو میری زیارت کے لیے میرے پاس آئے، میری زیارت کے سوا اس کی کوئی اور غرض نہ ہو تو میرے اوپر یہ واجب ہے کہ بروز قیامت میں اس کے لیے شفاعت کرنے والا بنوں ۔‘‘ یہ روایت اپنی سند اور متن میں منکر ہونے کے باوجود قبر مبارک کی زیارت کے لیے محل استدلال نہیں ہے اور اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں آپ سے ملاقات کرنے کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والے کے مستحق شفاعت ہونے پر بھی استدلال صحیح نہیں ہے، کیونکہ کسی شخص کے، آپ کی شفاعت کا مستحق ہونے کی بنیادی شرط اس کا مومن ہونا یا ایمان لانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ہے، اور یہ دونوں چیزیں اس روایت میں مفقود ہیں اور یہ ثابت ہے کہ کفار ایمان لانے کے علاوہ دوسری غرض سے بھی مدینہ حاضری دیتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے تھے، خصوصیت کے ساتھ ’’عام الوفود‘‘ میں اور اس کے بعد۔ اس کی سند کا حال یہ ہے کہ اس کی روایت میں ایک ایسا راوی منفرد ہے جس کو حدیث کی روایت اور تحمل میں کوئی شہرت حاصل نہیں اور نہ اس کا حال ہی معروف ہے یعنی وہ مجہول ہے اس کا نام مسلمہ بن سالم جہنی بصری ہے اور اس سے اس کی روایت کرنے والا عبداللہ بن محمد عبادی ہے جس کی منفرد مرویات ناقابل استدلال ہیں ۔[1] میرے خیال میں یہ دکھانے کے لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی فضیلت میں کوئی ایک بھی روایت صحیح نہیں ہے، صرف اتنی جھوٹی اور منکر روایتوں کا ذکر کافی ہے۔ صحابہ اور تابعین کا طرزِ عمل: مشہور محدث محمد شبیر سہسوانی رحمہ اللہ کی کتاب: ’’زیارتِ قبرِ نبوی‘‘ کے مقدمہ میں امام ابن تیمیہ کی کتابوں کے منفرد محقق اور حدیث کے مستند عالم مولانا محمد عزیر شمس تحریر فرماتے ہیں : ’’صحابہ کرام اور تابعین کے زمانے میں لوگ قبر کے پاس حجرے کے اندر جاتے نہ باہر کھڑے ہوتے، حالانکہ وہ دن رات میں پانچ بار نماز کے لیے مسجد نبوی آتے تھے۔ اس طرح دور دور سے لوگ خلفائے راشدین سے ملنے اور دوسرے کاموں کے لیے مدینہ آتے، مسجد میں نماز پڑھتے اور نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھتے اور ایسا ہی مسجد میں داخل ہوتے اور اس سے نکلتے ہوئے درود و سلام پڑھتے، قبر کے پاس نہیں جاتے، کیونکہ ایسا کوئی حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا تھا، ہاں ابن عمر اور بعض صحابہ نے قبر کے پاس
[1] الصارم المنکی، ص: ۴۹