کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 597
اس کا متن شرعاً باطل ہے، کیونکہ مسجد نبوی اور قبر مبارک کی زیارت حج کے اعمال میں داخل نہیں ہے۔ ۲:… ((من حج فزار قبری بعد موتی، کان کمن زارنی فی حیاتی)) ’’جس نے حج کیا اور میری موت کے بعد میری قبر کی زیارت کی وہ اس شخص کے مانند ہے جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔‘‘ اس روایت کی سند میں متعدد ضعیف، جھوٹے اور حدیث وضع کرنے والے راوی شامل ہیں ۔[1] اس روایت کے باطل ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس میں قبر مبارک کی زیارت کرنے والے کو صحابی کے برابر قرار دے دیا گیا ہے جو مسلمہ اسلامی عقیدہ کے خلاف ہے۔ یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرنے والا آپ کی زیارت کرنے والا اس اعتبار سے بھی نہیں قرار دیا جا سکتا کہ ’’زیارت‘‘ کا لفظ کسی کی زندگی میں اس سے ملاقات کرنے کے لیے بنا ہے، لہٰذا قبر کی زیارت صاحبِ قبر کی زیارت نہیں قبر کی زیارت ہے، اسی طرح خواب میں کسی کو دیکھنے اور اس سے ملنے پر بھی اس کی زیارت کی تعبیر صحیح نہیں ہے۔ ۳:… ((من زارنی بعد موتی فکأنما زارنی فی حیاتی)) ’’جس نے میری موت کے بعد میری زیارت کی، اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی۔‘‘ یہ بھی حدیث نہیں جھوٹ ہے اور زبان اور شرع دونوں اعتبار سے باطل ہے یہ دراصل صوفیا کے عقیدہ کی ترجمان ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصاً اور اپنے نام نہاد ’’اولیاء‘‘ کی موت کے قائل نہیں ہیں ۔ سند کے اعتبار سے یہ صرف ضعیف ہے اس کا راوی ہارون ابو قزعہ ضعیف ہے جس کو بعض لوگوں نے ہارون بن قزعہ بتایا ہے۔[2] ۴:… ((من زار قبری وجبت لہ شفاعتی)) ’’جس نے میری قبری کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘ یہ بھی جھوٹ ہے اور متن کے اعتبار سے منکر ہے ۔ اس کا ایک راوی عبداللہ بن ابراہیم غفاری اور دوسرا عبدالرحمن بن زید بن اسلم منکر اور جھوٹے تھے۔[3] قیامت کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق صرف ایسا موحد ہو گا جس نے صدق دل سے ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کہا ہو گا۔[4]
[1] المعجم الکبیر: ۳/۲۰۳۔ المعجم الأوسط: ۴/۲۲۲، حدیث نمبر: ۳۴۰۔ الکامل: ۲/۷۸۸-۷۸۹۔ سنن دار قطنی، ص: ۲۷۹۔ سنن بیہقی: ۵/۲۴۶ [2] الصارم المنکی، ص: ۳۰۔ الضعیفہ: ۳/۸۹-۹۱، حدیث نمبر: ۱۰۲۱۔ [3] الصارم المنکی، ص: ۳۳۔ الإرواء: ۱۱۲۸) [4] بخاری: ۹۹، ۶۵۷۰