کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 596
کے فرماتا ہے: ﴿ … لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَo﴾ (الزمر: ۶۵) ’’اگر تم نے شرک کیا تو یقینا تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا اور تم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔‘‘ ۲۔ حدیث سے دوسری جو چیز معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ درود و سلام کی غرض سے بھی قبر مبارک کی زیارت غیر ضروری ہے۔ قبر مبارک کی ترغیب دلانے والی روایتوں کی حقیقت: اوپر زیارت قبور، صالحین کی قبروں پر سجدہ گاہیں تعمیر کرنے کی نکارت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے بت بنائے جانے سے تحفظ اور قبر مبارک کے پاس میلہ لگانے کی ممنوعیت سے متعلق جو صحیح حدیثیں پیش کی گئی ہیں ان سے روزِ روشن کی طرح یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت عام قبروں کی زیارت کے حکم میں داخل ہے اور ان لوگوں کے لیے جائز ہے جو مخصوص طور پر مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی غرض سے مدینہ کا سفر کریں ۔ لیکن اس زیارت کا کوئی خاص اجر و ثواب نہیں ہے، اگر اجر و ثواب ہے تو صرف درود و سلام پڑھنے کا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے سے پڑھنے والے ’’موحد‘‘ کے حق میں درج کیا جاتا ہے، قبر مبارک کی زبارت کا مخصوص اجر و ثواب اس صورت میں ہوتا جب آپ کی یا آپ کی قبر کی تعظیم کی نیت سے اس زیارت کی ’’مشروعیت‘‘ ثابت ہوتی، لیکن جہاں یہ مشروعیت غیر ثابت ہے، وہیں اسلام کے توحیدی مزاج اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے منافی بھی ہے اس تناظر میں یہ زیارت غیر مرغوب فیہ ہے۔ ان باتوں کے واضح ہو جانے کے بعد ایسی روایتوں کے ذکر کی چنداں ضررت نہیں تھی جن سے قبرِ مبارک کی زیارت کی فضیلت کا اشارہ ملتا ہے۔ لیکن چونکہ صوفیا کے حلقوں میں یہی روایتیں معروف ہیں اور ان کی بنیاد پر انہوں نے قبر مبارک کی زیارت کو جواز کے دائرہ سے نکال کر وجوب اور شبہِ وجوب کے درجے تک پہنچا دیا ہے اس لیے ان کی حقیقت کا بیان ضروری ٹھہرا۔ میں نے اپنی کتاب -’’موضوع اور منکر روایات‘‘- میں ان روایتوں کی سند اور متن کے موضع اور من گھڑت ہونے کو دلائل سے بیان کر دیا ہے تفصیل کے خواہش مند اس سے رجوع کر سکتے ہیں (ص: ۳۹۷ تا ۴۱۸) یہاں میں ان کی استنادی حیثیت پر گفتگو نہیں کروں گا، صرف مختصراً ان کے درجات بیان کرنے پر اکتفا کروں گا۔ ۱:… ((… من حج و لم یزرنی فقد جفانی)) ’’جس نے حج کیا اور میری زیارت نہیں کی اس نے مجھ سے بے رخی برتی۔‘‘ یہ حدیث نہیں جھوٹ ہے، جس کا گھڑنے والا محمد بن محمد، یا اس کا دادا نعمان بن شبلی ہے، بہرحال دونوں جھوٹے تھے۔[1]
[1] الکامل: ۷/۲۲۸۔ الضعفاء: ۳/۷۳۔ الموضوعات: ۲/۵۹۷، ۵۹۸