کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 595
اس فقرے سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ قبرِ مبارک کی زیارت کو معمول نہ بنایا جائے، بلکہ جب کوئی مسجد نبوی کی زیارت کے لیے مدینہ جائے تو اس موقع پر اس کی بھی زیارت کر لے۔ قبروں کے پاس یا قبرستان میں قرآن کی تلاوت کی عدم مشرعیت اس حدیث سے واضح ہے: ((لا تجعلوا بیوتکم مقابرَ، فإن الشیطان یفر من البیت الذی یُقرأ فیہ سورۃ البقرۃ۔))[1] اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ، کیونکہ شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورۂ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔‘‘ حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورۂ بقرہ پڑھی جاتی ہے‘‘ تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گھروں میں صرف سورۂ بقرہ ہی پڑھی جائے، بلکہ یہ دراصل سورۂ بقرہ کی ایک خصوصی فضیلت کا بیان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ: ’’تمہارا درود و سلام مجھے پہنچ جاتا ہے‘‘ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں یہ تصریح ہے کہ زمین میں اللہ کے کچھ فرشتے گھومتے پھرتے رہتے ہیں ، وہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی امت کا سلام پہنچاتے رہتے ہیں : ((إن للّٰہ فی الأرض ملائکۃ سیاحین یبلغونی من أمتی السلام۔))[2] ’’درحقیقت زمین میں اللہ کے کچھ فرشتے گھومتے پھرتے ہیں وہ مجھے میری امت کا سلام پہنچا دیتے ہیں ۔‘‘ اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں : ۱۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا درود و سلام خود نہیں سنتے، چاہے وہ قریب سے کیا جائے یا دور سے، بلکہ فرشتے یہ دورد و سلام آپ کو پہنچا دیتے ہیں ، رہی وہ حدیث جس میں آیا ہے کہ: ((من صلی علیَّ عند قبری سمعتہ، و من صلی علی نائیاأبلغتہ)) [3] ’’جو میری قبر کے پاس سے مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ میں سنتا ہوں اور جو مجھ پر دور سے درود بھیجتا ہے وہ مجھے پہنچا دیا جاتا ہے۔‘‘ تو یہ حدیث نہیں جھوٹ ہے اس کا راوی محمد بن مروان سدی کذاب تھا، اس کا متن بھی اسلامی عقیدہ کے خلاف ہے، کیونکہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو دنیوی زندگی حاصل ہے جو اسلامی عقیدے کے خلاف ہے۔ یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اہل توحید کا درود و سلام پہنچایا جاتا ہے، رہے وہ لوگ جن کے عقیدہ و عمل میں ذرہ برابر بھی شرک ہے ان کا کوئی بھی عمل شمار ہی نہیں ہوتا، اور درود و سلام بھی عمل ہے، اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو مخاطب کر
[1] ۲۸۲۱۔ مسلم: ۷۸۰ [2] السنن الکبری للنسائی: ۹۲۰۴۔ مسند امام احمد: ۳۶۶۶، ۴۲۱۰، ۴۳۲۰، ۷۴۲۴ [3] مشکوٰۃ المصابیح: ۹۳۴