کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 594
طرح محفوظ رکھا کہ کسی بھی دور میں آپ کی قبر مبارک کے پاس ان مشرکانہ افعال کا ارتکاب نہیں ہوا جن کا ارتکاب برصغیر میں موجود مزاروں پر ہوتا ہے۔ البتہ دلوں کی بات الگ ہے اور شیخ محمد بن عبدالوہاب کی اصلاحی دعوت کے برگ و بار لانے سے پہلے، اس کے بعد اور موجودہ وقت میں زائرین کی اکثریت جس نیت اور ارادے سے قبر مبارک کی زیارت کرتی ہے، پھر غیر مسموع آواز میں براہ راست آپ سے دعائیں مانگتی ہے، آپ سے شفاعت کی درخواست کرتی ہے، آپ کا واسطہ دے کر اللہ سے بخشش طلب کرتی ہے اور آپ سے اپنی پریشانیوں کے ازالے، رزق میں کشادگی اور بیماریوں سے شفا کی درخواست کرتی ہے وغیرہ تو یہ سب کچھ اگرچہ صریح شرک ہے، مگر بدعقیدہ اور گمراہ لوگوں کے دلوں اور زبانوں کو ان سے پاک کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں داخل نہیں ہے، اور چونکہ لوگ ان مشرکانہ باتوں کا بآواز بلند اظہار نہیں کر سکتے اس لیے ان سے لوگوں کو روکنا اور منع کرنا ان محافظوں کی ذمہ داری بھی نہیں ہے جو وہاں ہر وقت تعینات رہتے ہیں ، البتہ یہ محافظ کسی بھی زائر کو قبر مبارک کی طرف رخ کر کے طویل دعا نہیں مانگنے دیتے۔ قبر مبارک کے پاس میلہ لگانہ منع ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر مبارک کے پاس، میلہ لگانے، اور جم گھٹا کرنے سے منع فرمایا ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((لا تجعلوا بیوتکم قبورا، و لا تجعلوا قبری عیدًا، و صلوا علیَّ، فإن صلاتکم تبلغنی حیث کنتم)) [1] ’’اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ اور میری قبر کو جشن گاہ مت بناؤ اور میرے اوپر درود بھیجو؛ تمہارا درود، تم جہاں کہیں بھی ہو مجھے پہنچ جائے گا۔‘‘ گھروں کو قبرستان بنانے سے اس لیے منع کیا گیا ہے، تاکہ ان میں نفل نمازوں کا اہتمام کیا جائے اور قرآن پاک کی تلاوت اور دوسرے اذکار سے ان کو معمور رکھا جائے اور ان کا حال قبرستان کا نہ بنا دیا جائے، جہاں شرعاً کسی طرح کی کوئی عبادت نہیں کی جاتی، ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن وغیرہ کی تلاوت بھی نہیں کی جاتی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر مبارک کو ’’جشن گاہ‘‘ بنانے سے جو منع فرمایا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس جمع ہونے، جم گھٹا لگانے، میلہ لگانے اور اجتماع کرنے اور جمع ہونے کو معمول نہ بنایا جائے عربی میں عید کا اطلاق ایسی تقریب، اجتماع، جشن اور میلے پر ہوتا ہے جو بار بار آئے اور بار بار اس کا مظاہر کیا جائے اور ایک طرح سے اس کو معمول بنا لیا جائے، برصغیر کے ملکوں میں موجود مزاروں پر جو سالانہ عرس منائے جاتے ہیں ، ملک کے طول و عرض سے جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں اور مرد و عورتیں ایک ساتھ میلے لگاتے ہیں اس سے حدیث کے اس فقرے کو سمجھا جا سکتا ہے۔
[1] ابو داود: ۲۰۴۲