کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 592
سمجھتا ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت سے موصوف مانتا ہے۔ اس سلسلے میں اگر کسی مسلمان کا گزر مسلمانوں کی قبروں کے پاس سے ہو تو وہ ان کی سلامتی کے لیے وہ دعا کرے جس کی تعلیم ہمارے نبی فداہ ابی و امی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے: ((السلام علیکم أہل الدیار من المؤمنین و المسلمین، و إنا إن شاء اللہ للاحقون أسأل اللہَ لنا و لکم العافیۃ)) [1] ’’اے مومنوں اور مسلمانوں کی بستی کے رہنے والو، تم پر سلامتی ہو ان شاء اللہ ہم تم سے ملنے والے ہیں ، میں اللہ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔‘‘ اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک طویل حدیث کے آخر میں آیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زیارت قبر کے موقع پر وہ کیا کہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((قولی السلام علی أہل الدیار من المؤمنین و المسلمین، و یرحم اللہ المستقدمین منا و المستأخرین، و إنا إن شاء اللہ بکم للاحقون)) [2] ’’کہو: مومنوں اور مسلمانوں کی بستی والوں پر سلامتی ہو اور اللہ ہم میں سے ان لوگوں پر رحم فرمائے جو آگے جا چکے اور جو بعد میں جانے والے ہیں ان شاء اللہ ہم تم سے ملنے والے ہیں ۔‘‘ خاص طور پر صلحاء کی قبروں کی زیارت کا ذکر کسی حدیث میں نہیں آیا ہے اور زیارت کا مقصد واضح کر دینے اور بیان کر دینے کے بعد یہ تخصیص بے معنی تھی اور کلام نبوت اس عیب سے پاک ہے۔ ’’زیارت قبور صالحین‘‘ تو صوفیا کی ایجاد ہے جو ان کی مشرکانہ ذہنیت کی پیداوار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر مبارک کی زیارت کا حکم نہیں دیا ہے: حدیث کی مستند کتابوں میں ’’حسن‘‘ درجہ کی بھی ایسی کوئی حدیث منقول نہیں ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر مبارک کی زیارت کا حکم دیا ہو، یا اس کی زیارت کی ترغیب دی ہو اور اس زیارت کا کوئی اجر و ثواب ہی بیان کیا ہو، اس مضمون کی حامل جتنی روایات کتابوں میں متداول اور صوفیا اور غیر صوفیا کے حلقوں میں زبان زد ہیں وہ حدیث نہیں جھوٹ ہیں اور ان کا ذکر چوتھی صدی ہجری اور پانچویں صدی ہجری میں مرتب کی جانے والی کتابوں میں آیا ہے اور ان کو منظم اور مرتب شکل میں منظر عام پر لانے والے تقی الدین سبکی متوفی ۷۵۶ھ مصنف ’’شفاء السقام فی زیارۃ سید الأنام‘‘ اور حافظ سیوطی متوفی ۹۱۱ھ مصنف ’’الدر المنثور‘‘ ہیں اور برصغیر کے صوفیا اور احناف ان جھوٹی روایتوں سے مکہ مکرمہ میں مقیم شیخ احمد زینی دحلانی متوفی ۱۳۰۴ھ کی کتاب ’’الدرر السنیۃ فی الرد علی الوہابیۃ‘‘ کے ذریعہ
[1] مسلم: ۹۷۵ [2] مسلم: ۹۷۴