کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 591
دوسرے تمام مقاصد کو غیر شرعی قرار دے دیا ہے، بلکہ سنن نسائی کی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور کے موقع پر زبان سے کوئی غلط بات نکالنے سے منع فرما کر موت اور آخرت کی یاد تازہ کرنے کے علاوہ کسی اور غرض سے قبروں کی زیارت کو ممنوع قرار دے دیا ہے اور یہ بھی تصریح فرما دی ہے کہ اس شرط کے ساتھ قبروں کی زیارت صرف جائز ہے کہ اس موقع پر کوئی غلط اور گندی بات زبان سے نہ نکالی جائے، حدیث کے الفاظ ہیں : ((نہیتکم عن زیارۃ القبور، فمن أراد أن یزور، فلیزُر، و لا تقولوا ہُجرًا)) [1] ’’میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کر دیا تھا، تو جو کوئی زیارت کرنا چاہے وہ زیارت کرے اور کوئی گندی بات مت کہو۔‘‘ ’’ہُجر‘‘ کسی غلط، گندی اور خلاف شرع بات کو کہتے ہیں اور مشرکانہ بات سے زیادہ غلط اور گندی بات کیا ہو سکتی ہے؟ زیارت قبور کا مقصد اصحاب قبور کی تعظیم نہیں ہے: یوں تو لفظ ’’قبور‘‘ میں جس طرح عام لوگوں کی قبریں داخل ہیں اسی طرح صالحین کی قبریں بھی داخل ہیں ، بلکہ غیر مسلموں کی قبروں پر بھی ان کا اطلاق ہوتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے اس کا ثبوت ملتا ہے کہ موت اور آخرت کو یاد دلانے کا ذریعہ غیر مسلموں کی قبریں بھی ہیں ، یہاں یہ وضاحت غیر ضروری ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا شمار مومنین میں نہیں ہوتا، کیونکہ جہاں ان کی وفات قبل از بعثت اور زمانۂ ’’فترہ‘‘ میں ہوئی تھی، وہیں ان کا شمار زمانہ جاہلیت کے موحدین -حنفاء- میں بھی نہیں ہوتا، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درخواست پر اللہ تعالیٰ ان کے لیے ’’استغفار‘‘ کی اجازت دے دیتا، لیکن اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی قبر کی زیارت کی اجازت تو دے دی، مگر استغفار کی اجازت نہ دی۔ مزید یہ کہ احادیث کے مطابق چونکہ یہود و نصاریٰ نے اپنے انبیاء اور صلحاء کی قبروں پر سجدہ گاہیں اور گرجے ان کی تعظیم اور عقیدت ہی کے جذبے سے تعمیر کیے تھے اور اللہ تعالیٰ کی لعنت اور غضب کے مستحق قرار پائے تھے اور صوفیا کے اندر یہ جذبات ان سے ’’فزوں تر‘‘ ہیں ، اس لیے قبروں کی زیارت کے موقع پر اصحاب قبور کی تعظیم و عقیدت کا جذبہ زائر کو اس اصل مقصد سے دور کر دیتا ہے جس کے لیے قبروں کی زیارت کی اجازت دی گئی ہے اور اگر اس کے ساتھ صوفیا کے اس ’’عقیدہ‘‘ کو بھی شامل کر لیجیے کہ ان کے خود ساختہ اولیاء اور صالحین ’’مرتے ہی نہیں ‘‘ بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں ، تو پھر ان کے صلحاء کی قبروں کی زیارت ممنوع قرار پاتی ہے، کیونکہ اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے، ان کی زیارت سے موت و آخرت کو یاد کرنے کا کوئی امکان ہی نہیں رہ جاتا اور میں نے اوپر یہ عرض کیا ہے کہ احادیث کے اسلوب بیان کی رُو سے قبروں کی زیارت صرف جائز ہے اور یہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ زیارت کرتے ہوئے زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکالی جائے جو خلاف شرع ہو یا جس سے یہ معلوم ہو کہ زائر صاحب قبر، یا اصحاب قبور کو صاحب تصرف
[1] ص ۲۰۳۲