کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 590
((نہیتکم عن زیارۃ القبور، فزوروہا)) [1] ’’میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کر دیا تھا، تو ان کی زیارت کرو۔‘‘ اس حدیث پاک میں اگرچہ ’’زُوْرُوْہَا‘‘ امر کا صیغہ آیا ہے، لیکن نہی کے بعد آنے کے وجہ سے اس سے صرف ’’جواز‘‘ کا حکم نکلتا ہے، اس کی تائید ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے جو علقمہ بن مرثد نے، سلیمان بن بریدہ سے اور انہوں نے اپنے والد بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((قد کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور، فقد أذن لمحمد فی زیارۃ قبر أمہ، فزوروہا، فإنہا تذکر الآخرۃ)) [2] درحقیقت میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے روک دیا تھا، لیکن محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے، سو ان کی زیارت کرو، کیونکہ وہ آخرت کو یاد دلاتی ہیں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد مبارک میں اپنی والدہ ماجدہ کی قبر کی زیارت کے جس اذن اور اجازت کا مجملاً ذکر فرمایا ہے، دوسری حدیث میں اس کی تفصیل موجود ہے؛ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ((زار النبی صلي اللّٰه عليه وسلم قبر أمہ فبکی و أبکی من حولہ، فقال: استأذنت ربی فی أن أستغفرلہا، فلم یؤذن لی، و استأذنتہ أن أزور قبرہا، فأذن لی۔ فزوروا القبور، فإنہا تذکرکم الموت)) [3] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی تو خود روئے اور اپنے پاس کے لوگوں کو رُلایا اور فرمایا: میں نے اپنے رب سے ان کے لیے استغفار کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت نہیں دی گئی اور اس سے ان کی قبر کی زبارت کرنے کی اجازت مانگی، تو اس نے مجھے اجازت دے دی۔ لہٰذا قبروں کی زیارت کرو، کیونکہ وہ موت کو یاد دلاتی ہیں ۔‘‘ بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ قبریں آخرت کو یاد دلاتی ہیں اور اس میں ہے کہ وہ موت کو یاد دلاتی ہیں ، تو دونوں میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں ہے، اس لیے کہ موت آخرت کا دروازہ ہے اور دونوں کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے؛ موت کی یاد سے آخرت کی یاد اور آخرت کی یاد سے موت کی یاد جڑی ہوئی ہے۔ مذکورہ بالا حدیثوں میں ’’قبور‘‘ کی تعبیر آئی ہے جو عام لوگوں کی قبروں اور انبیاء اور صلحاء کی قبروں کے لیے عام ہے، اور ’’زیارت قبور‘‘ کے مقصد کو بیان کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارۃً ’’موت اور آخرت‘‘ کی یاد تازہ کرنے کے علاوہ
[1] مسلم: ۹۷۷، نسائی: ۲۰۳۱ [2] ترمذی: ۱۰۵۴ [3] مسلم: ۹۷۶۔ ابو داود: ۳۲۳۴۔ نسائی: ۲۰۳۳۔ ابن ماجہ: ۱۵۷۲