کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 59
راوی صحابہ کرام میں صرف ایک رہا ہو، بشرطیکہ اس حدیث کے خلاف کوئی دوسری حدیث نہ ملتی ہو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس حدیث کا علم رکھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا بھی صرف ایک یا چند افراد رہے ہوں گے، ایسا اس لیے ہے کہ روایت حدیث تو فرض کفایہ تھی، جبکہ اس کا علم رکھنا اور اس پر عمل کرنا فرض عین تھا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے رسول تھے اور آپ کا ہر ارشاد سب کے لیے یکساں درجے میں مشعل راہ اور دستور حیات تھا، اور بظاہر اس کا راوی اگرچہ صرف ایک رہا ہو، مگر اس ایک راوی کے ذریعہ وہ حدیث جم غفیر میں پھیل چکی ہو گی جس کا ریکارڈ پر آنا ضروری نہیں تھا۔ ۱۔ پہلی مثال: میں نے ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اس کی مثال نیت کی حدیث ہے، یہ حدیث دین کی بنیاد ہے جس پر پورے دین کی عمارت کھڑی ہے اور کوئی بھی شرعی عمل نیت کے بغیر قابل اعتبار نہیں بایں ہمہ اس اہم حدیث کے راوی صرف عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔ تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ: اس حدیث کا علم رکھنے والے صرف عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے، کیونکہ صرف وہی اس کے راوی ہیں ؟ یا اس کا علم تو تقریباً تمام ہی صحابہ کرام کو رہا ہوگا، البتہ اس کی روایت کرنے والے صرف ایک صحابی تھے۔ معلوم ہوا کہ کسی حدیث کے راوی کے ایک ہونے یا چند کے ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس حدیث کا علم رکھنے والا بھی صرف ایک تھا یا معدودے چند تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ طبقہ تابعین کے تین گروہوں میں (بڑے، متوسط، چھوٹے) بھی اس حدیث کے راوی ایک ایک تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی روایت صرف علقمہ بن وقاص یشی متوفی ۸۰ھ نے کی ہے۔ جن کا شمار بڑے تابعین میں ہوتا ہے، اور ان سے اس کے راوی صرف محمد بن ابراہیم تیمی متوفی ۱۲۰ھ ہیں جو تابعین کے متوسط گروپ سے تعلق رکھتے تھے، اور محمد بن ابراہیم تیمی سے اس کی روایت کرنے والے صرف یحییٰ بن سعید انصاری متوفی ۱۴۳ھ ہیں جو طبقہ تابعین کے کم عمر گروپ میں شمار ہوتے ہیں ۔ یاد رہے کہ روایان حدیث کے طبقات میں یہ گروپ بندی عمر کے اعتبار سے ہے۔ مقام ومرتبے کے لحاظ سے نہیں اور تابعین کا طبقہ ۱۲ھ سے ۱۵۰ھ تک کے درمیانی زمانے پر پھیلا ہوا ہے اور وفات پانے والے سب سے آخری صحابی ابو طفیل عامر بن واثلہ ہیں جن کی وفات ۱۱۰ھ میں ہوئی اس سے یہ واضح ہوا کہ تابعین کا طبقہ صحابہ کے طبقہ میں پیوست ہے، اور ان کی تعلیم وتربیت صحابہ ہی کے ہاتھوں اور انہی کے اندر ہوئی، یہی حال تبع تابعین اور تبع تبع تابعین کا بھی تھا، اور تبع تبع تابعین کا زمانہ ۱۵۱ھ سے ۳۰۰ھ تک پھیلا ہوا ہے اور ۳۰۰ھ تک حدیث کی مستند اور امہات الکتب تدوین پاکر عالم اسلام کے ہر شہر اور قصبے میں پھیل چکی تھیں ۔ جب کہ انفرادی طور پر ، صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین اور ان کے بعد کے طبقوں میں بہت سے لوگ احادیث زبانی یاد رکھنے کے ساتھ ان کو قلم بند بھی کر لیا کرتے تھے۔ متفرق شکل ان میں ان لکھی ہوئی حدیثوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں لکھے جانے والے قرآنی صحیفوں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔