کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 589
((ألا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم ؟ أن لا تدع تمثالا إلا طمستہ، و لا قبرا مشرفا إلا سویتہ)) [1] ’’کیا میں تمہیں اس مہم پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا، وہ یہ کہ تم کسی مجسمہ کو مٹائے بغیر اور کسی اونچی قبر کو زمین کے برابر کیے بغیر نہ چھوڑو۔‘‘ ۲۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہتے ہیں : ((نہی رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم أن یُجصَّصَ القبر، و أن یُقعد علیہ و أن یُبنی علیہ)) [2] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پختہ کرنے، اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ نماز میں قبر کو قبلہ بنانا حرام ہے: نماز میں قبر کو قبلہ بنانے کے دو معنی ہیں ، ایک تو یہ کہ اصل قبلہ تو کعبہ مشرفہ ہی کو بنایا جائے، مگر اپنے اور قبلہ کے درمیان کسی قبر کو کر لیا جائے، جیسا کہ بعض نادان لوگ مسجد نبوی میں اس جگہ نماز پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں ان کے اور قبلہ کے درمیان قبر مبارک آ جاتی ہے۔ دوم یہ کہ تنہا قبر ہی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جائے، یہ دونوں صورتیں حرام ہیں ۔ ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((لا تجلسوا علی القبور و لا تصلوا إلیہا)) [3] ’’قبروں پر مت بیٹھو اور ان کی طرف رخ کر ک نماز مت پڑھو۔‘‘ قبروں کی زیارت صرف جائز ہے: یہود و نصاریٰ نے اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں سے متعلق جو طرزِ عمل اختیار کیا تھا اس کا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے آپ کو معلوم ہو گیا، اس اندیشے کے پیشِ نظر ابتدائے اسلام میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو زیارتِ قبور سے مطلقاً منع فرما دیا تھا کہ مبادا ان کے دلوں میں شرک کے جراثیم پیدا ہو جائیں ، لیکن جب صحابہ کے دل توحید آشنا ہو گئے اور انہوں نے توحید کی لذّت اور مٹھاس پا لی اور یہ خطرہ پوری طرح ٹل گیا کہ ان کے دلوں میں شرک داخل ہو سکے گا، تو آپ نے ایک دوسرے اہم مقصد کے لیے قبروں کی زیارت کی اجازت دے دی اور وہ مقصد یہ تھا کہ اس طرح ان کو موت اور آخرت کی یاد آتی رہے گی، چنانچہ سلیمان بن بریدہ اپنے والد بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
[1] مسلم: ۹۶۹ [2] مسلم: ۹۷۰ [3] مسلم: ۹۷۲