کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 588
جہاں توحید کی اہمیت اور شرک کی سنگینی کا پتا چلتا ہے کہ اس نازک موقع پر بھی آپ اپنے منصب رسالت کے سب سے اہم اور بنیادی پہلو کو بیان کرنا نہ بھولے، جبکہ آپ اپنا پیغام مکمل طور پر پہنچا چکے تھے اور چند لمحوں بعد آپ کی روح پاک ’’رفیق اعلیٰ‘‘ کی طرف پرواز کرنے والی تھی، وہیں آپ کے ان ارشادات مبارکہ سے یہ یقین دہانی بھی ہوتی ہے کہ قبروں کو مسجدوں میں تبدیل کرنا، قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا، قبروں کے پاس سجدے کرنا اور وہاں سجدہ گاہیں ، خانقاہیں ، مزارات اور درگاہیں بنانا بدترین شرک ہے۔ اہل کتاب کے صلحا کی قبروں اور صوفیا کی قبروں میں فرق: مذکورہ بالا حدیثوں میں جن لوگوں کی قبروں کو مسجدیں اور سجدہ گاہیں بنانے والوں پر لعنت کی گئی ہے ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صالحین کا لقب مرحمت فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ ان کی مرضی اور خواہش کے علی الرغم ہوا ہے اس طرح وہ اپنے ان عقیدت مندوں کے ان جرائم کے ذمہ دار نہیں تھے، اس کے برعکس مسلم ممالک میں عموماً اور برصغیر کے ملکوں میں خصوصاً جن صوفیا کی قبروں کو مسجدوں ، سجدہ گاہوں اور درگاہوں میں تبدیل کیا گیا ہے وہ ان کی مرضی اور خواہش، بلکہ ایک طرح سے ان کے اشارے پر کیا گیا ہے، سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا اپنے ملفوظات: ’’فوائد الفواد‘‘ میں فرماتے ہیں : ایک شخص خواجہ کریم نامی تھے شروع عمر میں کتابت کیا کرتے تھے اور آخر عمر میں دنیا سے منہ موڑ کر مشغول طاعت الٰہی میں ہوئے کہ واصلان الٰہی سے ہو گئے، غلبات عشق میں فرماتے تھے کہ : جب تک میری قبر دہلی میں سلامت رہے گی کافر اس شہر پر مسلط نہ ہو سکیں گے۔[1] یہ تو ایک توحید ناآشنا، تصوف کی گود میں پلنے والے دین سے ناواقف، فریب خوردہ انسان کی بڑ تھی، مگر سلطان المشائخ نظام الدین اولیا تو عالم و فاضل تھے ان کو کیا ہو گیا تھا کہ فرما گئے ہیں : جب حج کا شوق غالب ہوتا تو میں اجودھن جا کر اپنے پیر کی قبر کی زیارت کرتا اور اس سے میرا مقصود حج سے بھی زائد حاصل ہوتا۔[2] کیا اوپر نقل کردہ احادیث کی روشنی میں یہ دونوں واقعات اللہ و رسول سے اعلان جنگ نہیں ہیں ؟ عجیب اور قابل عبرت ہے یہ بات کہ برصغیر میں جتنی قبریں ، مزاروں ، درگاہوں اور سجدہ گاہوں میں تبدیل کی گئی ہیں اور جہاں ہر سال عرس منائے جاتے ہیں ، ہزاروں کی تعداد میں ان کے زائرین ان کو سجدہ کرتے ہیں اور ان میں مدفون نام نہاد ’’واصلان الٰہی‘‘ سے مرادیں مانگتے ہیں اور جہاں جوان مرد اور جوان عورتیں بن سنور کر جاتی ہیں اور فواحش کا ارتکاب ہوتا ہے صرف صوفیا کی قبریں ہیں جن میں سے ایک نظام الدین اولیا کی بھی قبر ہے جو مرجع خلائق ہے، جبکہ احادیث میں قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر عمارتیں بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ ۱۔ ابو ھیّاج اسدی سے روایت ہے، کہتے ہیں : مجھ سے علی بن ابو طالب نے فرمایا:
[1] آٹھویں مجلس، ص: ۶۸ [2] بحوالہ دین تصوف و طریقت، ص: ۱۵۷