کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 584
قبر پرستی جب اہل کتاب خاص طور پر یہود و نصاریٰ نے توحید کا سبق بھلا دیا اور اپنے رسولوں کی دعوت سے منحرف ہو گئے تو ان کے اندر دو ایسی برائیاں پیدا ہو گئیں جنہوں نے ان کو اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت سے دُور کر دیا اور وہ اللہ کے غضب کے مستحق قرار دے دیے گئے اور ان کا شمار گمراہوں میں ہونے لگا۔ ۱۔ ان کی پہلی برائی اور گمراہی یہ تھی کہ انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں کو ’’شارع‘‘ قرار دے دیا۔ جبکہ شریعت سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اللہ تعالیٰ نے سورۂ توبہ میں پہلے تو یہ بیان فرمایا کہ: ﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ یُضَاہِؤنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَo﴾ (التوبۃ: ۳۰) ’’اور یہودیوں نے کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ ان کے مونہوں سے نکلنے والی بات ہے یہ ان لوگوں کے قول کی مشابہت کر رہے ہیں جو ان سے پہلے کفر کے مرتکب ہو چکے ہیں اللہ انہیں مارے وہ کدھر بہکائے جا رہے ہیں ۔‘‘ اس کے بعد فرمایا: ﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰہًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَo﴾ (التوبۃ: ۳۱) ’’انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے اور مسیح ابن مریم کو بھی، جبکہ انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ صرف ایک معبود کی عبادت کریں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ ان کے شرک سے پاک ہے۔‘‘ غور فرمائیے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں اور نصاریٰ کے اپنے علماء اور درویشوں کو شریعت سازی کا درجہ دے دینے کو ان کو رب بنا لینے اور ان کو اپنا شریک بنانے سے تعبیر کیا ہے، چنانچہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے، لیکن وہ جس چیز کو حلال قرار دیتے تھے وہ اس کو حلال مان لیتے تھے اور جس چیز کو حرام کر دیتے تھے اس کو حرام مان لیتے تھے۔[1]
[1] ترمذی: ۳۰۹۵