کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 583
کے یہاں ان کے خلاف جو شکایت کی تھی اس میں ان کو ’’وہابیہ‘‘ کا سرغنہ قرار دیا تھا اس طرح انہوں نے خود یہ اعتراف کیا تھا کہ ان کے عقائد وہی ہیں جو عقائد شیخ محمد بن عبدالوہاب کے ہیں ، محمد بن عبدالوہاب کے عقائد ان کی کتابوں میں بے کم و کاست اور پوری صحت کے ساتھ موجود ہیں ، کیا ان میں سے کسی ایک عقیدے کو بھی کتاب و سنت میں بیان کردہ عقائد کے خلاف ثابت کرنے والا کوئی آج تک پیدا ہوا ہے، جبکہ تصوف کی کتابوں میں جو عقائد بیان کیے گئے وہ اسّی فیصد اسلامی عقائد کے خلاف ہیں اور روح اسلام ’’توحید‘‘ کا تو ان میں کوئی ذکر ہی نہیں ، پھر اسلامی قانوں کی رو سے گردن زدنی کون تھے، میاں صاحب یا ان کے مخالفین؟ ان واقعات کے ذکر کا مقصد؟ قارئین یہ سوال کر سکتے ہیں کہ منکرین کے ردّ میں لکھی جانے والی اس کتاب میں عموماً اور حدیث اور صوفیا کے باب کے ضمن میں خصوصاً ان واقعات کے ذکر کا مقصد کیا ہے؟ اس سوال کا جواب تو خود سطور بالا میں موجود ہے، مگر میں اس مقصد کو واضح کرتے ہوئے عرض گزار ہوں کہ مصنوعی صلاح و تقویٰ کے لباس میں ملبوس یہ جماعت روایتی منکرین حدیث سے زیادہ حدیث کی دشمن رہی ہے، متکلمین کے عقائد بیان کرتے ہوئے میں نے مثالوں سے یہ واضح کیا ہے کہ صوفیا کی اکثریت متکلمین ہی کی ہم عقیدہ رہی ہے، میں نے متعدد صوفی متکلمین کے ناموں کا ذکر بھی کیا ہے اور حدیث کے شرعی حجت ہونے سے متعلق ان کے نقطہ ہائے نظر بھی بیان کر دیے ہیں ۔ مکہ مکرمہ میں قاضی محمد مراد اور ان کے رفقا اور مولانا سیّد نذیر حسین کے خلاف فتنہ بھڑکانے والے سب کے سب ہندوستانی صوفیا تھے اور یہ سب عقائد میں متکلمین کے پیرو تھے، انہوں نے کبھی بھول کر بھی یہ اعتراف نہیں کیا ہے کہ ان کے عقائد کے مآخذ قرآن و حدیث ہیں یہ ایک طرف۔ دوسری طرف مولانا سیّد نذیر حسین کو درپۂ آزار بنانے والوں نے یہ سب کچھ اہل حدیثوں سے بغض و عناد کے اظہار میں کیا تھا اور ان کی نظر میں اہل حدیثوں کا سب سے بڑا اور ناقابل معافی جرم حدیث کو بنیادی ماخذ شریعت ماننا ہے، اس طرح اس باب کے تحت ان واقعات کے ذکر کا مقصد واضح ہے۔