کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 582
کے شاگرد تھے اور ان کی ہجرت مکہ کے بعد درس حدیث میں ان کی جانشینی کا شرف بھی انہی کو حاصل ہوا اور مسلسل کوئی چالیس برس یہ خدمت ادا کرنے کے بعد ان کے دل میں زیارت حرمین شریفین کا اشتیاق پیدا ہوا اس طویل مدت میں ان کے ہزاروں شاگرد ملک اور بیرون ملک پھیل چکے تھے اور حدیث کی تدریس اور حدیث کی ترویج و اشاعت کی خدمت انجام دے رہے تھے، تو کیا ایسے محدث کو شہید کرانے کے لیے، اور وہ بھی البلد الحرام میں فتنہ کھڑا کرنا بجائے خود ایک نہایت مجرمانہ عمل نہیں تھا اور ایسا کرنے والے اسلامی شریعت کی رو سے مجرم نہیں تھے؟ مولانا سیّد نذیر حسین بغرض حج حجاز گئے تھے، اس کے سوا ان کی کوئی اور غرض نہیں تھی اور ان اکابر صوفیا اور اقطاب عالم کے زمانۂ قیام مکہ میں ہزاروں ایسے لوگ وہاں حج کی غرض سے گئے تھے اور بسلامت وہاں سے واپس ہوئے تھے جو فاسد عقائد رکھتے تھے اور گمراہ فرقوں سے تعلق رکھتے تھے، مگر ان ’’صلحائے امت‘‘ نے ان میں سے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور کسی کو بھی درپۂ آزار نہیں بنایا، اگر ان کی ’’نظر عنایت‘‘ کا کوئی مرکز توجہ بنا بھی تو ایک ایسا محدث جس کی حدیث دانی کا اعتراف ہندوستانیوں سے پہلے عربوں نے کیا ہے تو کیا اس کا سبب اس کے سوا کچھ اور تھا کہ ’’روضۂ شریفہ کا غبار‘‘ آنکھوں میں لگانے والی اور قبر مبارک کو عرش، کرسی اور کعبہ سے زیادہ افضل اور اشرف سمجھنے والی یہ ٹولی ’’میاں صاحب‘‘ کی آڑ میں اپنی حدیث دشمنی کا مظاہر کر رہی تھی؟ مولانا سیّد نذیر حسین کو مطعون اور بدعقیدہ قرار دینے کے لیے ہندوستان میں جو دو رسالے ’’جامع الشواہد فی اخراج الوہابیین عن المساجد‘‘ اور ’’انتظام المساجد بإخراج أہل الفتن و المفاسد‘‘ شائع کیے گئے تھے ان میں جو عقائد ’’میاں صاحب‘‘ کی طرف منسوب کیے گئے تھے وہ تو خود مخالفین کے تیار کردہ تھے، پھر ان کے مندرجات کا ذمہ داران ان کو قرار دے کر ان کو شہید کرانے کی سازش کس ضابطۂ اخلاق کی رو سے روا تھی، میں نے دین و شریعت کے بجائے ’’ضابطۂ اخلاق‘‘ کی تعبیر قصداً اختیار کی ہے، کیونکہ ان ’’اکابر‘‘ کے نزدیک دین و شریعت بے معنی الفاظ ہیں ، البتہ ان کے ’’اخلاق عالیہ‘‘ کا ذکر ان کے مریدوں کے حلقوں میں بہت کیا جاتا ہے۔ میں تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیتا ہوں کہ سیّد نذیر حسین ایک معمولی انسان تھے، مگر تھے تو مسلمان، اور کم از کم وحدۃ الوجود کے قائل باطنیت کا عقیدہ رکھنے والے اور مثنوی رومی کو فارسی زبان کا قرآن کہنے والے حاجی امداد اللہ سے تو زیادہ بہتر عقائد رکھتے تھے، تو پھر ان سے پہلے تو یہ اور ان کے پیرو گردن زدنی تھے، مگر اہل حدیثوں نے کبھی بھی ان کے یا ان کے مریدوں اور صوفیائے دیوبند کے خلاف زبان درازی نہیں کی، جبکہ تصوف اور صوفیا کے خلاف لکھنا اور ان کے مشرکانہ عقائد کو طشت ازبام کرنا اسلامی فریضہ ہے، کیونکہ یہ جماعت اسلام کے نام سے غیر اسلام اور توحید کے نام سے وحدۃ الوجود، الحاد اور شرک پھیلا رہی ہے جس پر تصوف کی کتابیں شاہد ہیں ۔ مولانا سیّد نذیر حسین کے مخالفین نے صوفیائے ہندوستان مقیمین مکہ کے ساتھ مل کر، مکہ مکرمہ کے ارباب حل و عقد