کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 581
کے خلاف اور منافی باتیں ہوتی ہیں ویسے بھی محققین صوفیا کے نزدیک الہام ماخذ شریعت نہیں ہے۔
مثنوی رومی مولانا رومی کے استاذ و پیر شمس تبریز کا ’’عشق نامہ‘‘ ہے اس میں کفر و شرک کی باتیں بھی ہیں اور جھوٹی روایتوں کے مضامین بھی، اگر بعض اشعار کے مفاہیم قرآنی آیتوں سے ماخوذ بھی ہوں تو بھی مثنوی کو قرآن کہنے والا مسلمان نہیں ہے، حتی کہ حدیث کو بھی قرآن کہنا اور قرآن سے تشبیہ دینا کفر ہے، البتہ قرآن و حدیث کے احکام یکساں ہیں ، اس لیے کہ قرآن کی رو سے اللہ و رسول کی طاعتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
حاجی امداد اللہ محدثین اور برصغیر کے اہل حدیثوں سے بغض و عناد اور نفرت میں اپنی کوئی مثال نہیں رکھتے تھے۔ مولانا تھانوی نے اپنی کتاب ’’امداد الامشتاق‘‘ میں اہل حدیثوں کی بابت ان کے جو الفاظ نقل کیے ہیں ، وہ حد درجہ جارحانہ اور ان کی سیاہ قلبی کے ترجمان ہیں ، فرماتے ہیں :
’’متعصب غیر مقلد کہ فی زمانہ دعویٰ حدیث دانی و عمل بالحدیث کرتے ہیں ، حاشا و کلا کہ حقانیت سے بہرہ نہیں رکھتے تو اہل حدیث کے زمرے میں کب شامل ہو سکتے ہیں ، بلکہ ایسے لوگ دین کے ’’راہزن‘‘ ہیں ، ان کے اختلاط سے احتیاط چاہیے۔‘‘[1]
یہ جارحانہ الفاظ اس شخص کے ہیں جس کو اکابر صوفیا، مولانا تھانوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا سیّد سلیمان ندوی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، اور مولانا اویس ندوی وغیرہ نے قطب عالم اور شیخ العرب و العجم کے القاب سے نوازا ہے۔
اوپر تصوف اور شرک و بدعت کے جن عناصر خمسہ کا مختصر، مگر صحیح و جامع تعارف کرایا گیا ہے، اس کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا آسان اور مبنی برحق ہو جاتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں مولانا سیّد نذیر حسین کے خلاف اور ان سے پہلے قاضی محمد مراد اور ان کے رفقا کے خلاف جو فتنہ بھڑکایا گیا اور ان کو شہید کرانے کے لیے جو سازشیں کی گئیں ان میں بنیادی کردار انہی پانچوں نے ادا کیا تھا۔
فتنہ کا سبب کیا تھا؟
مکہ مکرمہ میں مولانا سیّد نذیر حسین کے خلاف جو طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا اور ملک سے ان کی روانگی کے فوراً بعد سے، بلکہ عزم سفر کے وقت ہی سے ہندوستان سے لے کر مکہ مکرمہ پہنچنے تک جس شرپسند ٹولی نے ان کا پیچھا کیا اور شہر مقدس میں مقیم اکابر صوفیا کے ساتھ مل کر ان پر اور ان کے ساتھ پوری جماعت اہل حدیث پر جو جھوٹے الزامات لگائے گئے اور جن کے باعث ان کو گردن زدنی قرار دیا گیا وہ خود انہی اکابر کے خود ساختہ تھے، پھر ان کو درپۂ آزار بنانا کس شریعت اور کس مسلک کی رو سے جائز تھا؟
اوپر یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ مولانا سیّد نذیر حسین مشہور حنفی عالم، محدث اور صوفی مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی
[1] ص: ۳۹