کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 580
میں بیان کیا ہے وہ ان کے چشم دید ہیں ، لکھتے ہیں : ’’ایک بزرگ شیخ محمد نامی حرم محترم میں حدیث پڑھایا کرتے تھے، انہوں نے ان کو حکماً اس سے ہٹا دیا، پھر وہ ایک مدت تک ایک حلوائی عبداللہ کی دکان کی ایک کوٹھری میں چھپ کر حدیث پڑھاتے رہے اس کو بھی انہوں نے جب مطلع ہوئے بند کرا دیا۔ ایک دفعہ حدیث کی ایک کتاب ’’سفر السعادۃ‘‘ تصنیف علامہ مجد الدین صاحب ’’القاموس المحیط‘‘ مکہ میں آئی اور شائقین حدیث نے اس کی ترویج و اشاعت چاہی تو اس کو بھی انہوں نے جاری نہ ہونے دیا، خاکسار نے مکہ مکرمہ میں چار مہینے رہ کر اکثر ان حالات کو بچشم خود ملاحظہ کیا ہے صرف سنی سنائی باتوں کو بیان نہیں کر دیا ہے۔‘‘[1] حاجی امداد اللہ کا کافی ذکر خیر سطور بالا میں آ چکا ہے، ان کے مبلغ علم اور ان کے مشرکانہ عقائد کے نمونے بھی بیان کر دیے گئے ہیں نیز انہوں نے بعض قرآنی آیتوں میں جو معنوی تحریفات کی ہیں ان کو بھی واضح کر دیا گیا ہے۔ موصوف دینی اور عصری دونوں علوم سے تہی دامن تھے، وحدۃ الوجود کے قائل اور داعی صوفی تھے، ان کی حیات مستعار کے آخری ایام حرم پاک میں مثنوی رومی کی تلاوت میں گزرتے تھے، جی ہاں موصوف مثنوی کی قراءت کو ’’تلاوت‘‘ سے تعبیر کرتے تھے، حکیم الامت تھانوی حکایات الاولیاء میں تحریر فرماتے ہیں : جب مثنوی کے درس کا وقت آتا تو حضرت حاجی صاحب یوں فرمایا کرتے تھے کہ آؤ بھائی مثنوی کی تلاوت کر لیں ، ایک شعر ہے: مثنوی مولوی معنوی ہست قرآن در زبان پہلوی اس کا لوگوں نے اس طرح حل کیا ہے کہ اس میں زیادہ مضامین قرآن شریف کے ہیں ، لیکن حضرت نے عجیب تفسیر فرمائی کہ بھائی قرآن سے مراد کلام الٰہی ہے اور کلام الٰہی کبھی وحی سے ہوتا ہے اور کبھی الہام سے ہوتا ہے، تو معنی مصرعہ کے یہ ہیں کہ مثنوی کلام الٰہی یعنی الہامی ہے۔[2] قرآن اللہ تعالیٰ کا، اپنے حروف، الفاظ اور معانی کے ساتھ کلام ہے اور بذریعہ وحی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل ہوا ہے اور حدیث بھی وحی ہے جس کے صرف معانی بذریعہ وحی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل ہوئے ہیں ، الفاظ اور تعبیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ہے۔ الہام اللہ کی طرف سے بھی ہوتا ہے اور شیطان کی طرف سے بھی، انبیاء پر نازل ہونے والی وحی کو الہام سے تعبیر کر سکتے ہیں ، مگر اس میں شیطانی خیالات کا کوئی گزر نہیں ۔ صوفیا کے الہامات بیشتر شیطانی ہوتے ہیں اس لیے کہ ان میں توحید اور قرآن و حدیث کے مضامین اور تعلیمات
[1] جلد ۶، شمارہ ۱۰، ص: ۲۸۹ بحوالہ اہل حدیث اور سیاست، ص: ۳۵۷-۳۵۸۔ [2] ص: ۲۰۷، حکایت نمبر: ۱۷۴۔