کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 58
رہی گواہ کی گواہی تو اللہ تعالیٰ نے اس گواہ کے جو اوصاف بیان کر دیے ہیں اگر وہ ان سے موصوف ہو تو اس کی گواہی پر عمل اللہ کے حکم سے فرض ہوا نہ کہ غلبہ ظن ’’کی بنیاد پر‘‘ لہٰذا حدیث واحد کو مفتی کے فتویٰ اور گواہ کی گواہی پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دنیاوی اور مادی حقوق کی حفاظت کا کوئی وعدہ نہیں کیا ہے، لیکن اپنے دین کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے اور وہ اس طرح کہ اس دین کے مکمل اور تمام ہونے کا اعلان فرما دیا ہے اور اس دین میں کسی طرح کی کمی یا نقص اس کے کامل ہونے کے منافی ہے اور یہ معلوم ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت یکساں درجہ رکھتی ہے۔ اب اگر اعلان الٰہی کے مطابق قرآن تو محفوظ ہے، لیکن حدیث محفوظ نہیں ہے یا محفوظ تو ہے مگر قرآن کی طرح یقینی نہیں ، بلکہ ظنی ہے تو پھر نہ تو یقین کے ساتھ اللہ کی اطاعت ہو رہی ہے اور نہ رسول کی، بلکہ اس طرح اطاعت ہو رہی ہے کہ اس میں ان کی معصیت اور نا فرمانی کا بھی شائبہ ہے۔ اتحاف النبیل کے مصنف شیخ مصطفی بن اسماعیل نے حدیث لعان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: اللہ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک یقینا جھوٹا ہے، سے خبر واحد کی ظنیت پر استدلال کیا ہے، کیسے؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے یا ان کو، لعان کے مسئلہ میں اگر شوہر اپنے الزام میں سچا ہو تو بیوی اپنے انکار میں جھوٹی ہو گی اور اگر بیوی اپنے انکار میں سچی ہو تو شوہر اپنے الزام میں جھوٹا ہوگا، نہ دونوں بیک وقت سچے ہو سکتے ہیں اور نہ جھوٹے، تو کیا روایت حدیث پر لعان کی صفت صادق آتی ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر کوئی بھی حدیث قابل تصدیق اور قابل عمل نہیں رہی اس لیے کہ حدیث متواتر کے عالم واقعہ میں غیر موجود ہونے کی وجہ سے صرف احادیث آحاد باقی بچیں اور ان دونوں واقعات سے ان کی حقیقت معلوم ہوگئی، لہٰذا پورا دین گورکھ دہندا بن کر رہ گیا۔ ’’یریدون أن یُطفؤا نور اللّٰہ باَفواہِہِم ویأبی اللّٰہ إلا أن یُتم نورہ ولوکرہ الکافرون۔‘‘ روایت حدیث اور علم حدیث حدیث واحد کی اس بحث میں میری مراد اس حدیث سے ہے جس کا راوی ایک طبقہ میں یا تمام طبقات میں ایک رہا ہو۔ اگرچہ علمائے حدیث اورمعتزلہ، متکلمین، اور نئے دور کے محققین اور مجددین امت ہر اس حدیث کو خبر واحد سے تعبیر کرتے ہیں جو خبر متواتر نہیں ہے۔ اور حدیث کی اس قسم ’’حدیث واحد‘‘ کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ کسی حدیث کے ہر طبقہ، یا طبقہ صحابہ میں صرف ایک راوی یا چند راویوں سے روایت ہونے کے معنی یہ ہیں کہ خود صحابہ کرام کے دلوں میں بھی اس کی چنداں قدر وقیمت نہیں تھی۔ مناظر احسن گیلانی اور علامہ انور شاہ شاہ کشمیری کے نزدیک تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اخبار آحاد کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے اور یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ احادیث قرآن کے مساوی ہونے پائیں یہ محض دعویٰ نہیں حقیقت واقعہ ہے جس کو میں پوری تفصیل سے اور دلائل کے ساتھ بیان کر چکا ہوں ۔ میں آئندہ سطور میں یہ دکھاؤں گا کہ روایت حدیث علم حدیث سے بالکل مختلف چیز ہے بایں معنی کہ جس حدیث کا