کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 579
میں مقیم علماء کو یہ اطلاع دے دی تھی کہ ہندوستان میں وہابیہ کا سب سے بڑا سرغنہ وہاں پہنچ رہا ہے، اگر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی تو ’’وہابی حجاز میں اس کو اپنی فتح سے تعبیر کریں گے۔‘‘[1]
اب یہ دیکھنا ہے کہ اس وقت مکہ مکرمہ میں مقیم ہندوستان کے کون سے علماء تھے جن کا وہاں سب سے زیادہ اثر و رسوخ تھا اور جو شریف مکہ تک رسائی رکھتے تھے اور جو تصوف سے اپنی گہری وابستگی رکھنے اور حنفیت میں غیر معمولی اور بے لچک تعصب کے باعث اہل توحید -وہابیوں اور اہل حدیثوں - سے دلی نفرت و عداوت رکھتے تھے اور ان کے درپۂ آزار رہنے کو صلاح و تقویٰ اور جہاد تصور کرتے تھے، تو وہاں کے حالات کا تتبع کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہاں جو ہندوستانی علماء، عوام اور ارباب حل و عقد میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھتے تھے، بلکہ ایک طرح سے وہاں کے سیاہ و سفید کے مالک تھے وہ تھے: مولانا آزاد کے والد مولانا خیر الدین، قبوری جماعت کے پیشوا مولانا عبدالقادر بدایونی، عیسائیوں سے کامیاب مناظروں میں شہرت رکھنے والے مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور صوفیائے دیوبند کے پیر حاجی امداد اللہ، اور ان عناصر اربعہ کا وہاں کے ایک عرب شیخ احمد زینی دحلان سے بڑا گہرا تعلق تھا۔ ان پانچوں میں جو چیزیں قدر مشترک تھیں ان میں سرفہرست، صوفیت میں غلو، شیخ محمد بن عبدالوہاب کی اصلاحی دعوت توحید کی شدید مخالفت اور اہل حدیثوں سے دلی نفرت و عداوت تھی، شیخ دحلان سے مولانا آزاد کے والد کے تعلقات کی نوعیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے دحلان کی خواہش اور طلب پر مولانا خیر الدین نے ’’وہابیت‘‘ کے ردّ میں ایک ضخیم کتاب لکھی، اسی طرح ان کی خواہش پر ایک رسالہ بھی لکھا جس میں انہوں نے اپنے مشرکانہ عقائد کو اہل سنت و جماعت کے عقائد سے تعبیر کیا ہے اور دحلان کا ذکر ’’بھائی‘‘ کہہ کر کیا ہے۔[2]
دحلان کے کردار کا اندازہ اس سے کیجیے کہ انہوں نے حجاز کے مفتی اور شیخ حرم کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے شافعیت چھوڑ کر حنفیت اختیار کر لی تھی، اس لیے کہ ان عہدوں کے امیدوار کے لیے حنفی ہونا لازمی تھا۔[3]
مولانا رحمت اللہ کو یوں تو ردّ عیسائیت میں کافی مہارت حاصل تھی اور انہوں نے انجیل کی تحریفات پر عبور رکھنے والے اور انگریزی اور عبرانی کے ماہر ڈاکٹر وزیر خان اکبر آبادی کے تعاون سے ان تحریفات کی نقاب کشائی کی ہے۔[4] لیکن اہل توحید، خاص طور پر علم حدیث سے وابستگی رکھنے والوں سے ان کا بغض و عناد دحلان سے کچھ کم نہ تھا، دونوں کے باہمی تعلقات بھی بڑے گہرے تھے، مرکز خلافت قسطنطنیہ سے بھی دونوں کا تعلق تھا اور دحلان ہی کی خواہش پر انہوں نے ’’اظہار الحق‘‘ لکھی تھی۔[5] اس مجاہد معمار کو حدیث اور علمائے حدیث سے جو بغض تھا اس کا ذکر ایک ہندوستانی عالم حدیث مولانا محمد حسین بٹالوی نے اشاعۃ السنۃ میں کیا ہے اور اس پر دلالت کرنے والے جن واقعات کو اپنی مذکورہ کتاب
[1] ص: ۸۹
[2] آزاد کی کہانی آزاد کی زبانی، ص: ۷۷-۷۸۔
[3] ص: ۷۸، اور البیان والاشہاد، ص: ۴۵۔
[4] مقدمہ حیات شبلی، ص: ۱۵۔
[5] ایک مجاہد معمار، ص: ۳۵۔