کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 578
کے عقائد کا استخراج کیا گیا تھا، مثلاً: شحم خنزیر کی حلت، بول طفل صغیر کی طہارت، مادۂ انسانی کا پاک اور قابل اکل ہونا، خالہ سے مناکحت کا جواز، اور جواز کذب باری تعالیٰ وغیرہ۔ بہرحال مولانا نذیر حسین اور مولانا تلطف حسین عظیم آبادی مع ایک اور رفیق کے گرفتار کر لیے گئے اور ایک نہایت ہی تنگ و تاریک ’’محبس‘‘ میں قید کر دیے گئے … اس اثناء میں ان کی گرفتاری کی خبر جدے میں برٹش قونصل کو پہنچ گئی اور وہاں سے برابر زور دیا جاتا رہا تھا بالآخر نو دن کے بعد ایک تحریر پر دستخط کرانے کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔‘‘ [1] مولانا آزاد کی حق گوئی: ’’ایک توبہ نامہ بھی مولانا نذیر حسین مرحوم کا بعض رسالوں میں میری نظر سے گزرا ہے، لیکن اس کے فرضی ہونے پر میں ایسی شہادتیں رکھتا ہوں ، جن سے زیادہ قابل اعتبار شہادتیں اور نہیں ہو سکتیں ، کیونکہ جو تحریر مولانا نذیر حسین نے دی تھی، وہ بارہا والد مرحوم نے مجھے حرف بحرف سنائی ہے اور وہ تحریر یہ تھی کہ، میں ائمہ اربعہ کی تقلید کو فرائض و واجبات شرعیہ کی طرح فرض نہیں سمجھتا، لیکن عوام کے لیے اور ان کے لیے جو فقہ و حدیث میں نظر نہیں رکھتے ہیں ، جب تک کہ قرآن و حدیث کے خلاف کوئی صریح بات پیش نہ آئے، کتب فقہ متداولہ پر عمل کرنے کو مستحسن سمجھتا ہوں۔‘‘[2] اس تحریر کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں فتنے سے بچنے کے لیے ایجابی طور پر جس وضاحت سے انہیں اپنے عقائد بیان کرنا چاہیے تھا اس سے انہوں نے گریز کی، لیکن منفی طور پر انہوں نے اپنے اصلی عقائد سے ہرگز انکار نہیں کیا، اور ان حالات کو دیکھتے ہوئے، جو انہیں وہاں پیش آئے تھے، ان کے اس تسامح کو کوئی بھی قابل الزام کمزوری نہیں قرار دے سکتا، یہ صاف ظاہر ہے کہ اگر وہ حریف کے ساتھ بحث و جدال پر اتر آتے تو نتیجہ نہایت ہولناک ہوتا۔‘‘ [3] فتنہ پرداز کون تھے؟ مولانا آزاد نے مکہ مکرمہ میں مولانا سیّد نذیر حسین کے خلاف فتنہ کھڑا کرنے والوں کے ناموں کا ذکر نہیں کیا ہے، صرف اس بات پر زور دیا ہے کہ قاضی محمد مراد اور ان کے ساتھیوں اور ہم عقیدہ لوگوں اور پھر مولانا سیّد نذیر حسین کے خلاف مکہ مکرمہ میں جو فتنہ کھڑا کیا گیا اس کے روح رواں ان کے والد تھے، البتہ قاضی محمد مراد کے واقعہ میں انہوں نے یہ صراحت کر دی ہے کہ اس میں اصل کردار ان ہندوستانی علماء نے ادا کیا تھا جو اس وقت وہاں مقیم تھے۔[4]اور مولانا سیّد نذیر حسین کے واقعہ کے ضمن میں یہ لکھا ہے کہ جن لوگوں نے ہندوستان میں ان کا پیچھا کیا تھا، انہوں نے مکہ
[1] ص: ۸۹، ۹۰، ۹۲ [2] ص: ۹۲ [3] ص: ۹۳، ۹۴ [4] ص: ۷۳