کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 577
’’مولانا رحمت اللہ کیرانوی مولانا سیّد نذیر حسین کی تکلیف دہی کی فکر میں رہتے تھے جو لوگ بغرض حج ہندوستان سے وہاں گئے تھے ان میں سے بعض نے مولانا کیرانوی کی زبان سے یہ سنا ہے کہ: اگر مولوی سیّد نذیر حسین یہاں مکہ میں آ جاوے تو پھر جان سلامت نہ لے جاوے۔‘‘[1] جماعت اہل حدیث سے تعلق رکھنے کے باعث مولانا محمد حسین بٹالوی کا یہ بیان ’’فن روایت‘‘ کی رو سے محل بحث ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ اس کے بعد جو واقعات رونما ہوئے اس کے شاہد ہیں ، اس لیے یہ بیان صد فی صد مبنی بر صدق ہے۔ بالآخر وہ گھڑی آن پہنچی: ۱۳۰۰ھ مطابق ۱۸۸۳ء میں ’’میاں صاحب‘‘ کے دل میں زیارت حرمین شریفین کی سعادت حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا اور جب ان کے عزم سفر حج کی خبر مشہور ہوئی تو صوفیا کی خانقاہوں اور علمائے احناف کے ایوانوں کے در و دیوار لرزنے لگے اور جوں ہی آپ دہلی سے روانہ ہوئے تو آپ کے چند مخالفین بھی پنجاب، دیوبند، دہلی اور بدایوں وغیرہ میں حرکت میں آ گئے، بمبئی پہنچنے پر چند اوباشوں نے آپ پر حملہ بھی کرنا چاہا۔ اور جب بمبئی میں میاں صاحب جہاز پر سوار ہوئے تو مخالفین بھی اسی پر سوار ہوئے اور اس میں آپ سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی، مگر آپ کے اعراض کی وجہ سے ان کو کامیابی نہیں ہوئی۔ ادھر مکہ مکرمہ میں یہ اطلاع دی گئی کہ ’’وہابیہ‘‘ کا سب سے بڑا سرغنہ آ رہا ہے، اگر یہاں کوئی کارروائی نہ کی گئی تو اس بات کو ’’وہابی‘‘ حجاز میں اپنی فتح سے تعبیر کریں گے اور عوام کو اس سے بہت فتنہ ہو گا۔ واقعہ کے اس اجمال کے بعد اس کی تفاصیل مولانا ابو الکلام آزاد کی زبان سے ملاحظہ فرمائیے، جن کے والد ’’مفسدین‘‘ کی ٹولی کے سرغنہ تھے، مولانا فرماتے ہیں : ’’ہندوستان میں چونکہ اس وقت تقلید و عدم تقلید کا فتنہ زور پر تھا اور مولانا نذیر حسین، غیر مقلدین کے سب سے بڑے شیخ سمجھے جاتے تھے، اس لیے فوراً مکے میں اطلاع دے دی گئی کہ ’’وہابیہ‘‘ کا سب سے بڑا سرغنہ آ رہا ہے، اگر یہاں کوئی کارروائی نہ کی گئی تو اس بات کو وہابی، حجاز میں اپنی فتح سے تعبیر کریں گے اور عوام کو اس سے بہت فتنہ ہو گا ساتھ ہی مولانا نذیر حسین کی کتابوں اور فتاویٰ کے بعض مطالب کا عربی میں ترجمہ کر کے پیش کیا گیا۔ ان میں بعض چیزیں تو واقعی ان کی کتاب ’’معیار الحق‘‘ سے لی گئی تھیں ، اور اکثر ایسے الزامات تھے جو ایسے موقعوں پر فریقین ایک دوسرے سے فریقانہ جذبات کے ماتحت منسوب کر دیتے ہیں ۔ اس زمانے میں ہندوستان میں ایک فتویٰ ’’جامع الشواہد فی اخراج الوہابیین عن المساجد‘‘ کے نام سے مرتب ہوا تھا اس میں چند عقائد تو واقعی اس جماعت کے تھے، اور بڑا حصہ منسوبات کا تھا، یا خود الزامی طور پر ان
[1] اشاعۃ السنۃ، جلد ۶، شمارہ ۱۰، ص: ۱۲۹۰