کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 576
ثمانیۃ قرون میں درج ہیں اس زمانے میں جزیرۂ عرب سے ہندوستان کا سفر کس قدر پُر مشقت اور مادی اعتبار سے کتنا گراں بار تھا وہ محتاج بیان نہیں ہے۔
بلاد نجد کے ان محبان حدیث کے علاوہ سوڈان کے شیخ عبداللہ ادریس اور کابل باغستان، بخاری، سمرقند، غزنہ، قندھار، خوقند اور حبشہ وغیرہ کے شیدائے حدیث نے ان سے حدیث کا فیض حاصل کیا تھا۔
مولانا سیّد نذیر حسین صحیح معنوں میں محدث تھے اور فن حدیث کی باریکیوں سے واقف وہ حدیث کا ’’دورہ‘‘ نہیں کراتے تھے، بلکہ حدیث، علوم حدیث، علم الرجال، حدیث سے مسائل و احکام کے استنباط کے طریقے سب کی تعلیم دیتے تھے اور قرآن کی طرح حدیث کو بھی ماخذ شرع مانتے تھے۔
علم حدیث میں اپنی اس گہرائی اور گیرائی کے باوجود ان کا سب سے بڑا لقب ’’میاں صاحب‘‘ تھا جو ان کے تواضع کی دلیل ہے، جبکہ حدیث کا دورہ کرنے اور کرانے والوں کے القاب امام العصر، زبدۃ المحدثین، امام أوحد وغیرہ سے کم نہیں ہوتے۔
میاں صاحب کی سب سے بڑی پہچان ان کا تواضع، ان کی مسلکی رواداری اور ان کی وسیع القلبی تھی، دہلی میں انہوں نے ساٹھ ستر برس درس حدیث دیا اور اس میں ان کے قیام کی مدت کوئی ۹۴ سال ہے اس لیے کہ وہ چھ برس کی عمر میں وہاں گئے تھے اور سو (۱۰۰) برس کی عمر میں وہیں انتقال کیا، مگر پوری زندگی نماز جمعہ جامع مسجد میں حنفی امام کے پیچھے پڑھتے رہے۔
میاں صاحب دوسرے مسلک کے علماء خاص طور پر علمائے احناف یا علمائے دیوبند سے کوئی پرخاش نہیں رکھتے تھے، مناظرانہ طبیعت بھی نہیں پائی تھی، تدریس اور افتاء نویسی کے علاوہ کسی اور چیز سے دلچسپی نہیں تھی اور ان کے فتوے محدثین کے طرز پر کتاب و سنت سے ماخوذ ہوتے دوسرے مسلکوں اور ان سے وابستہ علماء کی تنقید و تنقیص سے ان کی زبان اور ذات، پاک تھی، بایں ہمہ ان کا وجود اقطاب عالم، ائمہ دوراں ، اساتذہ عرب و عجم اور غبار روضۂ شریفہ آنکھوں میں لگانے والوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح چبھتا تھا۔
مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور حاجی امداد اللہ ہندوستان سے فرار ہو کر مکہ مکرمہ میں مقیم تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو امن و اطمینان دونوں عطا کر دیا تھا، مریدوں کے نذرانے بھی ان کو برابر مل رہے تھے اس طرح معاشی آسودگی تھی، مولانا کیرانوی کو مدرسۂ صولیۃ کی تاحیات نظامت بھی حاصل ہو چکی تھی ان تمام نعمتوں کے باوجود وہ حرم پاک میں بیٹھ کر مولانا نذیر حسین کو اذیت دینے کی تدبیریں سوچا کرتے تھے، گویا اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے لیے ان سے بڑا کوئی اور خطرہ نہیں تھا۔
مولانا محمد حسین بٹالوی ہندوستان میں اہلحدیثوں کے ایک بڑے عالم گزرے ہیں وہ ان دنوں مکہ مکرمہ ہی میں تھے ان کا بیان ہے کہ: