کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 574
جدہ میں برٹش قونصل کی مداخلت سے یہ لوگ مجبوراً چھوڑ دیے گئے، لیکن انہیں یہ سزا دی گئی کہ سب کے سب خارج البلد کر دیے گئے اور حجاز کی پولیس نے انہیں جدے میں لا کر برٹش قونصل کے حوالے کر دیا۔
جدے سے یہ لوگ جہاز میں بٹھا کر بمبئی بھیجے گئے، لیکن ہندوستان میں ان پر یہ بلا آئی کہ ان کے مخالفین نے یہ کارروائی کی کہ وہاں کے تمام ’’نقاط‘‘ کو یہ اطلاع بھیج دی کہ یہ لوگ مخذول اور مردود کر کے حرم سے خارج کر دیے گئے ہیں ۔
بمبئی میں قاضی سلیمان کو جب معلوم ہو گیا کہ وہ گرفتار کیے جائے والے ہیں تو اپنے بعض دوستوں کی مدد سے بغداد چلے گئے، مگر قاضی محمد مراد کسی طرح بھی نہ بچ سکے اور کلکتہ پہنچتے ہی گرفتار ہو گئے اور جیل میں سخت تکالیف کے صدمے سے انتقال کر گئے۔‘‘[1]
مولانا آزاد نے یہ تو صراحت کر دی ہے کہ قاضی محمد مراد بنگالی رحمہ اللہ کی سفر طائف سے واپسی کے بعد جن اکتیس آدمیوں کو گرفتار کیا گیا تھا ان کے عقائد کی تحقیقات کے لیے شریف مکہ نے ایک مجلس مقرر کی تھی جس کا صدر اس نے ان کے والد مولانا خیر الدین کو بنایا تھا، مگر انہوں نے یہ نہیں لکھا ہے کہ اس مجلس کے ممبران کون تھے، البتہ انہوں نے بقول اپنے ’’علماء وہابیہ‘‘ کے تذکرہ سے پہلے کے فقرہ میں یہ لکھا ہے کہ ’’جو ہندوستانی علماء اس وقت مکہ میں مقیم تھے انہوں نے علمائے حجاز اور شریف کو مطلع کیا تھا کہ یہاں مکہ میں ایک ایسی جماعت مقیم ہے جو باعتبار عقائد محمد بن عبدالوہاب کی جماعت ہے اور ہندوستان سے خاص اس لیے آئی ہے کہ یہاں اپنی تحریک پھیلائے۔‘‘ [2]
اور یہ معلوم ہے اور آنے والے دوسرے واقعہ سے مزید معلوم ہو گا کہ اہل توحید کے علاوہ جو ہندوستانی علماء اس وقت مکہ معظمہ میں مقیم تھے ان میں سرفہرست مولانا خیر الدین، مولانا عبدالقادر بدایونی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور حاجی امداد اللہ تھے، لہٰذا یہی اس مجلس کے ممبرز رہے ہوں گے۔
تبصرہ:
قاضی محمد مراد بنگالی نے، حنفی امام عبداللہ ترداد کے ’’زیارت مقبول‘‘ کہنے پر جو فرمایا تھا، وہ صرف یہ تھا کہ: میں کسی قبر کی زیارت کے لیے نہیں گیا تھا، بلکہ محض تفریح کے لیے گیا تھا۔‘‘ تو ان کا یہ ارشاد کتاب و سنت کی کس نص کے خلاف تھا کہ اس پر اتنا بڑا طوفان کھڑا کیا گیا اور ’’البلد الحرام‘‘ کی حرمت پامال کی گئی، پھر خیر الدین کی صدارت اور مذکورہ قبر پرست جماعت کی رکنیت میں جو مجلس تشکیل دی گئی اور اس نے ان حق پرستوں کے سامنے جو سوالات رکھے، یعنی: وجوب تقلید شخصی، استحباب قیام، زیارت قبور کے لیے سفر اور استمداد و توسل -توصل- بالصالحین وغیرہ وہ قرآن و حدیث کی کس نص، بلکہ ائمہ اربعہ میں سے کسی بھی امام کے کس قول کی رو سے اسلامی عقائد شمار ہوتے ہیں ، عقائد کی بات تو بہت بڑی
[1] ص: ۷۰، ۷۳، ۷۴، ۷۵، ۷۶
[2] ص: ۷۳