کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 573
کائنات میں تصرف کے مالک تھے، فلاں کے ہاتھ میں بیماریوں سے شفا، مصیبتوں سے نجات اور لوگوں کے فقر و محتاجی کو دولت و تونگری میں بدل دینے کا اختیار تھا، اور یہ اپنے مریدوں کو روز حشر میں حساب کتاب کے بغیر جنت میں داخل کر دیں گے۔ مولانا آزاد فرماتے ہیں : ’’والد مرحوم کے سفر قسطنطنیہ سے پہلے مکہ معظمہ میں ایک نہایت اہم واقعہ پیش آیا، جسے افسوس ہے، کسی نے بھی قلم بند نہیں کیا ہے، حالانکہ وہ نہایت عبرت انگیز اور تاریخی ہے۔ اس زمانے میں ہندوستانی علمائے ’’وہابیہ‘‘ کی جو جماعت وہاں تھی اس میں مولوی محمد انصاری سہارنپوری، مفتی محمد مراد بنگالی، شیخ عبداللطیف اور قاضی محمد سلیمان جونا گڑھی بھی تھے۔ والد مرحوم نے شریف -مکہ- کو ان لوگوں کے برخلاف سخت برانگیختہ کر دیا۔ اتفاق سے اسی زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ قاضی محمد مراد طائف گئے، جب واپس آئے، تو شیخ عبداللہ مَرداد امام حنفی ان سے ملنے گئے اور دستور کے مطابق سلام کے بعد ’’زیارت مقبول‘‘ کہا، جس سے مراد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قبر کی زیارت تھی۔ قاضی صاحب نے جواب دیا: میں کسی قبر کی زیارت کے لیے نہیں گیا تھا، بلکہ محض تفریح کے لیے گیا تھا۔‘‘ اس بات کا بہت چرچا ہوا اور شریف تک پہنچائی گئی اور اس کے یہ معنی ٹھہرائے گئے کہ یہ لوگ بھی محمد بن عبدالوہاب کی طرح قبور صالحین کی زیارت کے مخالف ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند دنوں کے بعد اچانک اس جماعت کے اکتیس آدمی گرفتار کر لیے گئے، جن میں مولانا رحمت اللہ، صاحب ’’اظہار الحق‘‘ بھی تھے، لیکن یہ بعد کو رہا کر دیے گئے، کیونکہ انہوں نے اپنی حنفیت کے بہت واضح دلائل پیش کر دیے تھے۔ شریف نے ایک مجلس مقرر کی اور والد مرحوم سے کہا: ان لوگوں کے عقائد کی تحقیقات کریں ان پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ محمد بن عبدالوہاب کی جماعت سے ہیں ، انہوں نے اس سے انکار کیا، اس پر والد مرحوم نے سترہ سوال مرتب کر کے پیش کیے، جن میں : وجوب تقلید شخصی، استحباب قیام، زیارت قبور کے لیے سفر اور استمداد و توسل بالصالحین وغیرہ سوالات تھے۔ افسوس ہے اس موقعہ پر بجز تین شخصوں کے اور سب نے تقیہ کیا اور کسی نے بھی استقامت نہ دکھائی، مولوی محمد انصاری، مولوی عبداللطیف اور قاضی محمد مراد نے بڑی جرأت و دلیری کے ساتھ اپنے صحیح عقائد پیش کر دیے اور کہا: اگر قرآن و سنت پر عمل کرنا اور بدعت سے اجتناب کرنا جرم ہے، تو ہم مجرم ہیں اور ہر طرح کی سزا برداشت کرنے کو تیار ہیں ۔