کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 572
کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے والوں کو ملعون اور بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے ان کے فحوا سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ مخصوص طور پر صلحاء کی قبروں کی زیارت ممنوع ہے، الا یہ کہ زائر توحید شناس ہو اور صرف موت اور آخرت کی یاد تازہ کرنے کی غرض سے عام قبروں کی زیارت کے ضمن میں ان کی بھی زیارت کر لے تو یہ صرف جائز ہے۔ رہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت تو اس کی فضیلت میں کوئی ایک بھی روایت صحیح نہیں ہے، اس سے متعلق جتنی بھی روایتیں لوگوں میں پھیلی ہوئی اور کتابوں میں متداول ہیں ان کی اکثریت موضوع اور منکر ہے، اور جو سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں وہ بھی متن کے اعتبار سے منکر ہیں ، ابتدائی تین صدیوں میں علمائے امت اور فقہاء کے درمیان یہ متعارف نہیں تھیں یہ دراصل صوفی ذہن کی پیداوار ہیں ، جن کو رواج دینے اور پھیلانے میں غالی اور متعصب صوفی تقی الدین سبکی متوفی ۷۵۶ھ کا زبردست ہاتھ ہے۔ ۱۸۸۰ء اور ۱۸۸۳ء کے درمیانی زمانے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان پانچوں ’’پیشوایان امت‘‘ کے مکروہ چہرے سے صلاح و تقویٰ کا مصنوعی نقاب الٹ دیا اس لرزہ خیز واقعہ کی تفصیلات مولانا آزاد رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: ’’آزاد کی کہانی آزاد کی زبانی‘‘ میں ثبت کر دی ہیں جو اس واقعہ کی سب سے زیادہ صحیح تفصیلات ہیں اس لیے کہ ان کا ماخذ مولانا آزاد کے والد مولانا خیر الدین ہیں جو اس اہم اور عبرت ناک واقعہ کے بنیادی کردار تھے اور اس کی زد براہ راست ان کی ذات پر پڑتی ہے اور کوئی بھی شخص اپنے باپ کی منقبت میں تو غلط بیانی یا مبالغہ آرائی کر سکتا ہے، مگر مذمت میں نہیں کر سکتا، اسی طرح کوئی شخص اپنی تعریف اور منقبت میں تو غلط بیانی اور مبالغہ آرائی کر سکتا ہے، مگر خود ہی اپنی مذمت نہیں کر سکتا اور اپنی طرف ایسے اعمال منسوب نہیں کر سکتا جن سے اس کی بدنامی ہوتی ہو، خاص طور پر صوفیا جن کی خود ساختہ بڑائی، عظمت اور تقدس من گھڑت حکایتوں پر مبنی ہے اور جن کی صحیح نفسیات اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد مبارک میں بیان کر دی گئی ہے: ﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo﴾ (آل عمران: ۱۸۸) ’’تم ان لوگوں کو، جو اپنے اعمال پر خوش ہوتے ہیں اور انہیں یہ پسند ہے کہ ان اعمال پر ان کی تعریف کی جائے جو انہوں نے نہیں کیے ہیں عذاب سے محفوظ مت خیال کرو اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ چنانچہ ایک طرف تو صوفیا کی پوری زندگی شرک و بدعت اور اس کی دعوت کے محور کے گرد گھومتی ہے اور انہوں نے خود اور ان کے پیرؤوں نے ان کو الوہیت اور ربوبیت کے مقام پر بٹھا دیا ہے اور یہ صوفیا اور ان کے پیرو اپنے ان مشرکانہ اعمال پر خوش ہیں اور اپنی مجلسوں اور کتابوں میں ان کے تذکرے اس مقصد سے کرتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے اور بیان کیا جائے کہ فلاں حضرت تو صلاح و تقویٰ کے مقام بلند پر فائز تھے، فلاں بزرگ عالم الغیب اور امور