کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 571
۴۔ قرآن و حدیث میں عشق، عاشق اور معشوق کے الفاظ نہیں آئے ہیں ، بلکہ ان کو صوفیا کی کتابوں اور ایرانی ادب و شعر کے ذریعہ شہرت ملی ہے اور ایران کے شعرا اور ادبا سے عربوں کے اختلاط کے نتیجے میں عربی ادب و شعر میں ان الفاظ کا استعمال شروع ہوا ہے، پھر صوفیا کے حلقوں میں ان کا سب سے زیادہ رواج ہوا اور یہ ان کی شناخت بن گئے۔ ۵۔ ایک مردکا اپنے کو ’’زن حائض‘‘ کہنا اور ادائے نماز کا اپنے آپ کو غیر مکلف قرار دینا صوفیا ہی کی زبانوں سے بھلا لگ سکتا ہے، اور انہی کے حلقوں میں فضیلت ہو سکتا ہے۔ ۶۔ مذکورہ جھوٹی حکایت کی رو سے شخص مذکور نے جو آواز سنی تھی اس میں صاحب آواز نے اس کو اپنا معشوق کہا تھا، اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا، مگر دریا سے اس کے باہر نکلنے کے بعد جو بھی اس سے ملتا اس کو السلام علیک یا احمد معشوق‘‘ کہہ کر سلام کرتا فوراً ان تمام لوگوں کو اس کی معشوقیت کی خبر کیسے ہو گئی؟ ۷۔ کس بنیاد پر ایک بدبخت سے متعلق اس جھوٹی حکایت کی لوگوں نے تصدیق کر دی اور تو اور کیا سلطان المشائخ کے علم میں بھی شفاعت سے متعلقہ آیتیں نہیں تھیں ؟ اہل حق سے عداوت و دشمنی: یوں تو جھوٹی روایت: اختلاف أمتی رحمۃ‘‘ کی ترویج کرنے والوں میں اہل تصوف پیش پیش رہے ہیں ، مگر تصوف سے معمولی اختلاف رکھنے والوں اور اتباع سنت اور عمل بالسنۃ کو مسلک حیات بنانے والوں سے عداوت و دشمنی اور کینہ و بغض رکھنے والوں میں سرفہرست بھی یہی صوفیا رہے ہیں ، جبکہ اس جھوٹی روایت کا تقاضا ہے کہ اس کو صحیح ماننے والے اور اختلاف کو رحمت قرار دینے والے اپنے باطل عقائد اور اعمال سے اختلاف رکھنے والوں کو برداشت کریں اور انہیں کتاب و سنت پر عمل کرنے دیں ۔ ۱۸۶۰ء سے ۱۹۰۰ء تک کا زمانہ مکہ مکرمہ میں اہل توحید کے لیے بڑا پر آشوب تھا، ان دنوں البلد الحرام میں توحید کے پانچ بڑے دشمنوں : شیخ احمد زینی دحلاں متوفی ۱۸۸۲، مولانا ابو الکلام آزاد کے والد مولانا خیر الدین متوفی ۱۹۰۸، حاجی امداد اللہ متوفی ۱۸۹۹، مولانا رحمت اللہ کیرانوی متوفی ۱۸۹۱ء اور قبوی جماعت کے پیشوا مولانا فضل رسول بدایوانی کے صاحب زادے مولانا عبدالقادر بدایونی کا بڑا اثر و رسوخ تھا اور اہل توحید کی مخالفت میں یہ پانچوں باہم شیر و شکر تھے اور ہر کتاب و سنت پر عمل کرنے والے پر وہابی کا الزام لگا کر اس کا جینا دوبھر بنائے ہوئے تھے، چونکہ عثمانی حکام خود شیخ محمد بن عبدالوہاب متوفی ۱۷۹۲ء کی دعوت توحید سے شدید پرخاش رکھتے تھے، اس لیے یہ پانچوں جس شخص پر وہابیت کا الزام لگا کر اس کی شکایت عثمانی حکام سے کر دیتے اس کو فوراً گرفتار کر لیا جاتا اور بعد از تعذیب اس کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا جاتا۔ ۱۔ پہلا واقعہ: صالحین کی قبروں کی زیارت کی ترغیب میں ضعیف اور جھوٹی روایتیں بھی نہیں ہیں ، بلکہ جن صحیح حدیثوں میں صالحین