کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 570
اور تو میرا معشوق ہے۔‘‘ خواجہ احمد یہ سنتے ہی پانی سے نکلے اس کے بعد جو شخص آپ سے ’’ملاقی‘‘ ہوتا تھا سلام بالفاظ: السلام علیک یا احمد معشوق‘‘ کرتا تھا۔‘‘ حضرت خواجہ ذکر اللہ بالخیر -نظام الدین- یہ بیان فرما کر زور سے رو پڑے۔ حاضرین میں سے کسی شخص نے عرض کیا کہ وہ نماز نہیں پڑھتے تھے‘‘ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں یہ امر صحیح ہے، جس وقت لوگوں نے ان سے نماز پڑھنے کے بارے میں بہت کہا، آپ نے قبول فرمایا، اور کہا کہ سورۂ فاتحہ نہ پڑھوں گا۔ علماء نے جواب دیا کہ بغیر اس کے نماز نہ ہو گی، آپ نے فرمایا: خیر إیاک نعبد و ایاک نستعین نہ پڑھوں گا، کہا گیا کہ یہ آیت بھی پڑھنی ہو گی۔‘‘ ’’القصہ بعد گفتگوئے بسیار نماز پڑھنے کھڑے ہوئے جب إیاک نعبد و ایاک نستعین پڑھا، ہربنِ مو سے خون جاری ہوا، اس وقت حاضرین سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: میں ’’زن حائض‘‘ ہوں ، میرے واسطے نماز روا نہیں ہے۔ [1] مولانا علی میاں نے اپنی کتاب تاریخ دعوت و عزیمت کے مقدمہ میں فوائد الفواد کی بڑی تعریف کی ہے، مجھے یقین ہے کہ انہوں نے یہ کتاب نہیں پڑھی ہو گی اور کاش نہ پڑھی ہو اس طرح اس کی تعریف سنی سنائی قرار دے کر نظر انداز کر دی جائے گی اور اگر انہوں نے پڑھ کر اس کی تعریف کی ہے تو وہ باطل کے مدافع قرار پائیں گے، میں نے ان کے حق میں یہ بڑی ہلکی تعبیر اختیار کی ہے ورنہ فوائد الفواد ’’ظلمات بعضہا فوق بعض‘‘ سے عبارت ہے اور اس سے میں نے جو یہ حکایت نقل کی ہے وہ اس کتاب کے مندرجات کے کفر و شرک اور گمراہ کن ہونے پر واضح دلیل ہے۔ ۱۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں اپنے نبی و رسول اور صاحب شفاعت کبریٰ سے بھی یہ وعدہ نہیں کیا ہے کہ وہ آپ کی شفاعت سے ہزاروں خطا کاروں کی مغفرت فرما دے گا تو ایک بدعقیدہ اور بدعمل سے اس کا وعدہ کیسے کر لیا۔ ۲۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے علاوہ اپنے کسی نبی اور رسول سے براہ راست کلام نہیں کیا ہے جس پر قرآن صریح ہے اور ان کو اپنی ہم کلامی کا شرف صرف ایک بار بخشا ہے۔ ۳۔ شیخ احمد معشوق نے کوئی آواز سنی ہو گی ویسے صوفیا کی بیان کردہ ۹۰ فیصد حکایتیں جھوٹی ہوتی ہیں جس دور میں تصوف نے عقائدی اور کلامی صورت نہیں اختیار کی تھی اس دور کے ارباب زہد و توکل بھی دروغ گوئی اور کذب بیانی میں مشہور تھے تو متاخرین جن کی خانقاہیں اسی کذب بیانی پر قائم ہیں اس سے احتراز کس طرح کر سکتے ہیں مذکورہ صوفی کے کردار کی روشنی میں بشرط صحت ان کو شیطان نے آواز دی ہو گی اور اس طرح کا اور ایسے شخص سے یہ وعدہ شیطان نے کیا ہو گا۔
[1] ص: ۳۹۲-۳۹۳