کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 57
تبصرہ: ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں کسی معاملہ میں مخاصمت اور نزاع کی حالت بیان کی گئی ہے، اور یہ بات معلوم ومعروف ہے کہ جب کسی مسئلہ یا معاملہ میں دو یا اس سے زیادہ لوگوں میں نزاع ہو جاتا ہے تو ہر شخص یا فریق اپنے آپ کو صاحب حق قرار دینے کی کوشش کرتا ہے اور حاکم، یا قاضی ہر ایک کے دلائل سن کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ سچا اور حقدار کون ہے؟ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیم دینی چاہی ہے وہ اولا تو یہ ہے کہ آپ کو غیب کا علم حاصل نہیں تھا کہ لوگوں کے دعوے سن کر یہ سمجھ جائیں کہ کون اپنے دعوے میں سچا ہے اور کون جھوٹا؟ ثانیا آپ نے یہ تعلیم دی ہے کہ آپ جو فیصلہ بھی کرتے ہیں وہ فریقین کی دلائل کی روشنی میں اور بشر ہونے کی وجہ سے اگر آپ کسی فریق کی قوت بیان اور دلائل سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ دے دیں اور اس کو اس چیز کا حقدار قرار دے دیں جس کا حقیقت میں وہ حقدار نہیں ہے تو آپ کے اس فیصلہ سے وہ چیز اس کے لیے حلال نہیں ہو جائے گی جس کے لیے آپ نے ’’قطعۃ من النار‘‘ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے جس سے اس کی سنگین بیان کرنی مقصود ہے۔ آخر اس واقعہ سے ’’حدیث واحد‘‘ کی ظنیت کس طرح ثابت ہوتی ہے؟ نزاع اور خصومت کے موقع پر ہر فریق پر ’’مفاد‘‘ کے حصول کا جذبہ غالب رہتا ہے اس لیے ہر ایک اپنے آپ کو صاحب حق ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، کیا روایت حدیث کے موقع پر حدیث کے راویوں پر بھی اسی طرح کا کوئی جذبہ غالب ہوتا ہے، میری مراد ’’عدل‘‘ اور حفظ وضبط سے موصوف راوی ہیں ۔ ہر طرح کے راوی نہیں ، مثال کے طور پر جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ کہتے تھے کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا فرماتے ہوئے سنا ہے اور ان سے روایت کرتے ہوئے سعید بن مسیب کہتے تھے کہ: ’’میں نے ابوہریرہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، اور ان سے روایت کرتے ہوئے زہری کہتے تھے کہ: ’’میں نے سعید بن مسیب کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اور زہری سے روایت کرتے ہوئے مالک بن انس یہ کہتے تھے کہ: میں نے زہری کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے‘‘ تو ان میں سے ہر ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا کوئی عمل بیان کرتا تھا اور اس کی بنیاد سماع کو قرار دیتا تھا جو یقینی ذریعہ علم ہے اور حدیث دین ہے، تو کیا کسی بھی صورت سے یہ روایت واحد دو فریق مقدمہ کے دعویٔ حق کی طرح ہے، مزید یہ کہ راوی حدیث کا مقصد دین کی تبلیغ وترویج کے سوا کچھ اور نہیں تھا اور وہ غایت درجہ عدالت وحفظ کی صفت سے بھی موصوف تھا، جبکہ کسی مقدمے کے فریقوں کے پیش نظر اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں یا ان میں سے صرف ایک حقدار ہوتا ہے، رہا دوسرا تو وہ محض دعویدار۔ رہا مفتی کا فتویٰ تو وہ یا تو اس کے اجتہاد پر مبنی ہوتا ہے اور اجتہاد صواب اور خطا دونوں کا احتمال رکھتا ہے یا کسی ایسی دلیل پر مبنی ہوتا ہے جو صحیح نہیں ہوتی، پھر ہر مفتی کے فتویٰ پر عمل کرنا واجب بھی نہیں ہے اور یہ معلوم کرنا بہت آسان ہے کہ کس مفتی کا فتویٰ یقینی علم پر مبنی ہے۔