کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 569
میری جو حدیث پہنچی ہے وہ صحیح ہے، مگر میں تم لوگوں کی طرح نہیں ہوں ، میری یہ خصوصیت ہے کہ اگر میں قدرت کے باوجود کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کے بجائے بیٹھ کر پڑھوں ، پھر بھی اس کا اجر کم نہیں ہوتا۔‘‘ غور فرمائیے افضل الرسل، خیر البشر اور سیّد اولاد آدم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول مبارک سے ایک شرعی حکم فیان فرماتے ہیں ، پھر جو عمل کرتے ہیں وہ اس قول مبارک کے خلاف ہوتا ہے اور یہ چیز ایک صحابی کے لیے باعث تشویش بن جاتی ہے تو وہ بلا کسی خوف و خطر کے آپ سے اس اختلاف کا سبب دریافت کرتا ہے اور صاحب ’’خلق عظیم‘‘ اس کی اس حرکت پر برافروختہ نہیں ہوتا، اور اس کو گستاخی قرار دے کر اس کو کوئی سزا نہیں دیتا، بلکہ نہایت پیار و محبت سے اس کو یہ بتا دیتا ہے کہ تمہیں ملنے والی میری حدیث تو صحیح ہے، مگر اس کا حکم میرے اوپر منطبق نہیں ہوتا۔ اس حدیث کو اپنے سامنے رکھیے اور اکابر صوفیا کی ’’استعبادی‘‘ حرکتوں کا جائزہ لیجیے تو آپ کو ان مدعیان صلاح و تقویٰ کی ان حرکتوں اور سیرت پاک اور اسوۂ حسنہ کے درمیان وسیع سمندر نظر آئے گا۔ یہ اکابر، جن کے تصور کو ذہن میں جمانے اور بسانے کو دین اور توجہ الی اللہ میں یکسوئی پیدا کرنے کا اہم ذریعہ قرار دے لیا گیا ہے اپنے مریدوں سے اپنی عبادت اور پرستش کراتے ہیں ، اپنے مشرکانہ اقوال و افعال کو دین اور شریعت کی طرح واجب الاتباع قرار دیتے ہیں اور قرآن و حدیث کی نصوص سے متصادم اپنی جھوٹی کرامتوں ، اوراد و اذکار کے اپنے من گھڑت طریقوں اور فضائل و مناقب کی جھوٹی اور خود ساختہ روایتوں کی ان سے تصدیق کرواتے ہیں ، اور ندوی اور گیلانی جیسے لوگ ان کے ان اعمال کو ’’تجدید و احیائے دین‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں !! ذکر ایک معشوق الٰہی کا: نظام الدین اولیاء، جن کو مولانا ندوی اور مولانا گیلانی نے ’’سلطان المشائخ‘‘ کا لقب دیا ہے ان کے ملفوظات کے مجموعہ ’’فوائد الفواد‘‘ کی اکتیسویں مجلس کی دوسری حکایت امیر علاسنجری نے ’’سلطان المشائخ‘‘ کی زبانی ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’آپ نے فرمایا کہ شیخ احمد معشوق طوسی ایک مرتبہ جاڑے کے چلے میں اپنے مقام سے باہر نکلے دریا کو گئے، وسط دریا میں کھڑے ہو کر مناجات کی کہ الٰہی جب تک مجھے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ میں کون ہوں میں پانی سے باہر نہ نکلوں گا اسی وقت یہ آواز سنی کہ تم وہ عالی درجہ شخص ہو کہ تمہاری شفاعت سے بروز حشر میں ہزارہا اشخاص خطاکار بخش دوں گا، اور وہ بہشت میں جائیں گے۔ آپ نے جواب دیا کہ مجھے اس سے صبر نہیں آیا۔ دوبارہ آواز آئی کہ تم وہ شخص ہو کہ تمہاری خاطر و شفاعت سے ہزار اشخاص دوزخ سے خلاص کروں گا۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس امر سے کچھ غرض نہیں ۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تو مجھے بتلا دے کہ میں کون ہوں ، اسی وقت آواز آئی کہ ہم نے حکم دیا کہ جس قدر درویش و عارف ہیں وہ میرے عاشق ہیں