کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 568
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ((إن صلی قائما فہو أفضل، و من صلی قاعدا فلہ نصف أجر القائم، و من صلی نائما فلہ نصف أجر القاعد)) [1] ’’اگر وہ کھڑے ہو کر پڑھے تو زیادہ بہتر ہے اور جو بیٹھ کر نماز پڑھے تو اسے کھڑے ہو کر پڑھنے والے کے ثواب سے آدھا ثواب ملے گا اور جو لیٹ کر پڑھے تو اسے بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملے گا۔‘‘ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہتے ہیں : ((حدثت أن رسول اللہ صلي اللّٰه عليه وسلم قال: صلاۃ الرجل قاعدا نصف الصلوۃ، قال: فأتیتہ فوجدتہ یصلی جالسا، فوضعت یدی علی رأسہ، فقال: مالک یا عبداللہ بن عمرو؟ قلت: حُدثت یا رسول اللہ! أنک قلت: صلوۃ الرجل قاعدا علی نصف الصلوۃ، و أنت تصلی قاعدا! قال اجل، و لکنی لست کأحد منکم)) [2] ’’مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بیٹھے ہوئے کی نماز آدھی نماز ہے۔ کہتے ہیں : میں آپ کی خدمت میں آیا تو آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو میں نے اپنا ہاتھ آپ کے سر مبارک پر رکھ دیا، اس پر آپ نے فرمایا: اے عبداللہ بن عمر! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے: بیٹھے ہوئے کی نماز آدھی نماز کے برابر ہے، جبکہ آپ بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں ؟! فرمایا: صحیح ہے، لیکن میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں ۔‘‘ وجہ استدلال: اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی رو سے جو شخص نفل نماز بلا کسی عذر کے بیٹھ کر پڑھے تو جائز ہے، مگر اس کی یہ نماز اپنے اجر و ثواب میں کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نماز سے آدھی شمار کی جائے گی، اور یہ امر مسلم اور ناقابل بحث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل ترین عمل کرتے تھے، اسی وجہ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے جب آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے ازراہ تعجب آپ کے سر مبارک پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور آپ کے اس کا سبب دریافت کرنے پر عرض کیا کہ مجھے تو آپ کی یہ حدیث پہنچی ہے کہ بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز اپنے اجر و ثواب میں آدھی شمار ہوتی ہے اور آپ خود یہی عمل کر رہے ہیں ۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تمہیں
[1] بخاری: ۱۱۱۵۔ ابو داود: ۹۵۱۔ ترمذی: ۳۷۱۔ نسائی: ۱۶۵۹۔ ابن ماجہ: ۱۲۳۱۔ [2] مسلم: ۷۳۵۔ مسند امام احمد: ۶۵۱۲، ۶۸۹۴۔ السنن الکبری للنسائی: ۱۳۶۱۔ ابو داود: ۹۵۰۔ بغوی: ۹۸۴۔ المعجم الاوسط للطبرانی: ۸۷۴۔ و الصغیر: ۹۵۴