کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 567
اس کا اظہار کیا تھا، پھر اس پر اتنی برہمی کے کیا معنی؟ یہی شوشہ اگر سامنے آ جاتا وہی لمبی لکیر بن سکتا تھا … بلکہ دین کی آڑ لے کر سلطان جی چاہتے تو ’’اسوۂ حسنۂ نبویہ‘‘ کے معیار پر شیخ کبیر کے اس طرز عمل کو کھوٹا بتا کر لوگوں کو دکھا سکتے تھے، لیکن ظاہر ہے کہ وہ اپنا علاج کرانے کے لیے آئے تھے شیخ کبیر کی کمزوریوں کا علاج ’’اجودہن‘‘ آنے سے مقصود نہ تھا۔ اس کو طے کر چکے تھے کہ یہ معالج طبیب ہے اس کے تنقید کا حق ان کے لیے باقی ہی کب رہا تھا۔‘‘[1] اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنا بندہ بنایا ہے، نظام الدین اولیاء کی طلب صادق جب ہوتی جب وہ اپنے جیسے غلاموں کی غلامی اور بندگی کا طوق اپنی گردن سے اتار کر لوگوں کو اللہ کی بندگی کی دعوت دینے والے بن جاتے اس صورت میں ان سے مشائخ کا تخت تو چھن سکتا تھا، مگر ان کا نام ’’عباد الرحمن‘‘ کی فہرست میں شامل ہو جاتا، جو سرخروئی اور کامیابی کی معراج ہے۔ دین آڑ نہیں ہے اور ’’اسوۂ حسنہ نبویہ‘‘ معانی سے خالی صرف ایک عنوان نہیں ہے، بلکہ ایک طالب صادق کا واحد منہج حیات ہے، چونکہ اہل تصوف اسلام ہی کا نام لیتے ہیں اس لیے عرض ہے کہ جو منہج حیات، سلوک کی جو راہ اور تعلیم و تربیت کا جو طریقہ بھی ’’اسوہ حسنہ‘‘ کا ترجمان نہ ہو وہ ناقابل قبول ہے اور جو سلطان المشائخ بھی مکمل طور پر ’’سنت نبویہ‘‘ کا پیرو نہ ہو وہ اللہ کا نہیں انسانوں کا بندہ ہے اور جو کتاب و سنت کی تعلیمات کا پیرو اور متبع نہ ہو وہ خود مریض ہے حاذق طبیب نہیں وہ دوسروں کا کیا علاج کر سکتا ہے؟ دراصل معمولی سی تنقید، معمولی سا مشورہ، اور معمولی سی ہونہاری کتنے ’’قدس سرہ‘‘ اور کتنے ’’سلاطین المشائخ‘‘ کے مبلغ علم، صلاح و تقویٰ اور استقامت علی الحق کے بھانڈے پھوڑ دیتی ہے، اسی وجہ سے خانقاہوں میں شیخ کے پجاری اور بندے اس کے اشاروں پر ناچتے ہیں ، اس طرح مسند مشیخت قائم ہے۔ سیرت پاک کا ایک تابناک واقعہ: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور رسول کو غیر مشروط مطاع اور متبوع بنایا ہے، آپ کی اطاعت کا حکم ہمیشہ اپنی اطاعت کے ساتھ دیا ہے، آپ کے ہر حکم اور فیصلے پر سرتسلیم خم کر دینے کا حکم دیا ہے اور آپ کی سیرت پاک کو اہل ایمان کے لیے اسوۂ حسنہ اور نمونۂ تقلید بنایا ہے، ایک نبی اور رسول ہونے کی حیثیت سے آپ کا کوئی قول یا فعل محل بحث نہیں ، بلکہ محل طاعت و اتباع تھا، پھر بھی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ وہ معاملہ نہیں کرتے تھے جو آقا غلاموں کے ساتھ اور بادشاہ رعایا کے ساتھ کرتا ہے، جو لوگ آپ کے دست مبارک پر ایمان لائے تھے ان کو غلام اور خادم کا نام نہیں ، اصحاب کا نام دیا گیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول یا فعل پر بصورت سوال یا اعتراض کچھ بولنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں تھی، اس کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے ایسے استفسارات بھی کرتے تھے جو ’’خانقاہی شریعت‘‘ میں شیخ کے ساتھ گستاخی ہونے کے ناطے قابل سرزنش اور قابل عقاب ہیں ۔
[1] ص ۴۵-۶۴، ج ۳