کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 566
دے کر اپنے پیر کی علمی خدمت کی تھی جس پر ان کے پیر کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا، مگر افسوس ہے کہ مولانا علی میاں نے اس واقعہ کی صوفیانہ توجیہ کر کے جہاں اپنا قد چھوٹا کر لیا ہے، وہیں قرآن و حدیث سے ثابت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے اس واقعہ کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرزنش سے نظام الدین اولیا کے پیر کی سرزنش کو تشبیہ دے کر ایک ایسی فحش دینی غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کی کوئی بھی توجیہ قابل قبول نہیں ہے؛ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک نہایت اہم غزوہ سے پیچھے رہ کر ایک ایسے فریضہ کو ترک کیا تھا جو اسلام کی سب سے بلند چوٹی ہے اس طرح انہوں نے اللہ و رسول کی حکم عدولی کی تھی، رہے نظام الدین تو انہوں نے اللہ و رسول کیا، خود اپنے پیر کی بھی حکم عدولی نہیں کی تھی، بلکہ نہایت نیک نیتی سے ان کو یہ اطلاع دی تھی کہ جس کتاب کے کرم خوردہ نسخہ کو پڑھانے میں ان کو دشواری ہو رہی ہے اس کا ایک بہترین اور خوشخط نسخہ ان کے بھائی کے پاس موجود ہے جس کو ان سے عاریۃً ہی سہی لیا جا سکتا ہے اس اطلاع یا مشورہ پر وہ اپنے شیخ کے شکر یے کے مستخق تھے، نہ کہ عتاب کے، بہرحال مولانا علی میاں کا حاشیہ پڑھیے اور صوفیانہ ’’کج فکری‘‘ پر سر دھنیے: ’’یہاں پر کوئی یہ شبہ نہ کرے کہ شیخ کامل نے تلمیذ رشید کی ایک معمولی سی اطلاع اور معروض پر اتنی بر افروختگی اور آزردگی کا اظہار فرمایا، اس لیے کہ جیسا کہ خود شیخ کے جملہ سے معلوم ہوتا ہے، یہ سب آزردگی یہ تکلف طالب رشید کی ترقیٔ باطنی اور خود شکنی کے لیے ہے۔ شیخ مجتہد و مخلص اس کے لیے اپنے اجتہاد سے مختلف ذرائع استعمال کر سکتا ہے اور اس کے لیے کسی تقریب و موقع کا بھی انتخاب کر سکتا ہے۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعہ اور ان کو اس کوتاہی پر جو ان سے بلا ارادہ سرزد ہوئی تھی جو سرزنش کی گئی اور ان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا اور کرایا گیا اس سے بھی روشنی اور راہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔[1] سلطان المشائخ نہیں پیر کا بندہ: مولانا علی میاں نے اسی پر بس نہیں کیا، کاش وہ اسی پر بس کرتے اور ان کا بھرم قائم رہتا، مگر ان کے خانقاہی ذہن نے اس کو ناکافی تصور کیا اور انہوں نے مناظر احسن گیلانی کا اقتباس نقل کر کے اپنی اس کتاب کو داغ دار بنا دیا جس میں انہوں نے انسانوں کو انسانوں کا بندہ بنا دینے کو عزیمت کی دعوت سے تعبیر کیا ہے اور گیلانی کے ’’ارشاد‘‘ کو صحیح قرار دیا ہے؛ گیلانی تحریر فرماتے ہیں : ’’صادق و کاذب طلب میں امتیاز کا وقت آ گیا دنیا دیکھ رہی تھی اب مولانا نظام الدین کا فیصلہ کیا ہوتا ہے؟ کیا مولانا بحاث اور محفل شکن ہی کے لقب کو لے کر دنیا سے چلے جائیں گے، جیسے لاکھوں ہی بحاث و محفل شکن آئے اور چلے گئے، یا مشائخ کے سلطان کا جو تخت خالی ہے اس پر قدم رکھنے کی ہمت کرتے ہیں …‘‘ ’’ظرف کے چھوٹے ہوتے تو کہہ سکتے تھے کہ بھلا میرا کیا قصور میں نے غلطی ہی کیا کی ہے، ایک اچھے نسخہ کا علم تھا
[1] ص:۶۳-۶۴، ج ۳