کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 565
کرم خوردگی بیان میں کچھ دشواری ہوتی تھی، میں نے عرض کیا کہ میں نے نسخۂ صحیح بخدمت شیخ نجیب الدین متوکل دیکھا ہے، یہ بات ناگوار خاطر ہوئی اور ارشاد فرمایا، درویش کو فرصت تصحیح نسخۂ سقیم نہیں ہے۔‘‘ یہ الفاظ آپ نے دو تین مرتبہ فرمائے۔ مجھے مطلقاً اس امر کا خیال نہ ہوا کہ آپ یہ میرے حق میں ارشاد فرما رہے ہیں ، کیونکہ میں نے وہ بات بطریق حکایت عرض کی تھی نہ کہ بطریق اعتراض مولانا بدر الدین اسحاق نے مجھ سے فرمایا کہ حضرت یہ بات میرے حق میں فرما رہے ہیں ، میں یہ سنتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور سر ننگا کر کے حضرت کے قدموں میں گر پڑا اور بہت معذرت کی، مگر اثرنا رضامندی دور نہ ہوا، میں بہت پریشان تھا، پھر میں نے اس کا تذکرہ حضرت کے لڑکے شہاب الدین سے کیا جو میرا دوست تھا اس نے ان کی خدمت میں جا کر کچھ عرض کیا کہ وہ خفگی جاتی رہی، پھر دوسرے روز مجھے بلا کر فرمایا: میں تم سے خوش ہوں اور یہ امر تمہارے کمال کے مزید ہونے کے واسطے کیا گیا ہے۔‘‘[1] ایک غلط توجیہ: نظام الدین اولیاء نے اپنے پیر اور شیخ کبیر سے ان کے زیر مطالعہ عوارف المعارف کے کرم خوردہ نسخہ کے مبقابلے میں ایک صحیح اور واضح نسخہ کی جو اطلاع دی تھی اس میں شیخ پر کسی طرح کے اعتراض کا کوئی شائبہ بھی نہیں تھا، مگر اس مخلصانہ اطلاع سے خود فریبی میں مبتلا صوفی پیر نے یہ محسوس کیا کہ ’’ہونہار‘‘ طالب علم اور مرید نے ان کی کم علمی بھانپ لی ہے اس سے ان کی مشیخت اور تقدس کا قصر خود ان کے سر پر گر سکتا ہے جس سے ان کی بناوٹی شہرت خاک میں مل سکتی ہے اور دوسری زبانیں بھی یہ کہہ سکتی ہیں کہ شیخ کبیر تصوف کی ایک کتاب بھی سمجھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں تو وہ قرآن و حدیث اور دوسری دینی اور علمی کتابیں کیا سمجھیں گے؟ یہ چیز ’’پیر پرستی‘‘ کے لیے بہت بڑا خطرہ تھی جس کا بروقت ازالہ کر کے شیخ کا ’’بھرم‘‘ بحال کرنا اشد ضروری تھا اور چالاک پیر نے نہایت ہوشیاری سے اسے بحال کر لیا کہ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔‘‘ مولانا علی میاں رحمہ اللہ دوسرے صوفیا میں یہ امتیاز رکھتے تھے کہ ان کو تصوف کی حقیقت بھی معلوم تھی اور اکابر صوفیا کے کردار سے بھی واقف تھے وہ کتاب و سنت کا وسیع اور گہرا علم بھی رکھتے تھے اور سیرت پاک کی عطر بیزیوں سے ان کے مشام جاں معطر بھی تھے اوپر تصور شیخ کے بارے میں ان کی دو ٹوک اور واضح رائے بیان کی جا چکی ہے، بایں ہمہ خاندانی خانقاہیت ان کو اظہار حق سے باز رکھتی تھی وہ احمد بن حنبل اور ابن تیمیہ کے جہاد قلم و سیف کے روشن کارناموں سے بھی واقف تھے اور محدثین اور ائمہ اربعہ اور ان کے عالی مقام تلامذہ کی حق گوئیوں کے واقعات بھی ان کو معلوم تھے، وہ اپنی کتاب میں جس کا موضوع دعوت و عزیمت کا بیان ہے، نظام الدین اولیاء اور ان کے پیر شیخ کبیر کے اس واقعہ کی معقول اور مقبول توجیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ نظام الدین نے عوارف المعارف کے ایک عمدہ اور واضح نسخہ کی اطلاع
[1] ص: ۹۰-۹۱