کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 564
دری، کأن شعر رأسہ أغصان شجرۃ)) ’’… اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کو اس کی شکل میں بیدار آنکھوں سے دیکھا، خواب میں نہیں ، اور آپ نے عیسیٰ، موسیٰ اور ابراہیم صلوات اللہ علیہم کو دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دجال کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: روشن و سفید، حسن -ابو زیاد- نے کہا: فرمایا: میں نے اس کو بھاری بھر کم اور گورا چٹا دیکھا، اس کی ایک آنکھ ٹھہری ہوئی تھی جیسے وہ روشن تارا ہو اور اس کے بال کسی درخت کی شاخوں کے مانند کھڑے ہوئے …‘‘[1] مولانا مدنی سے سوال ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کی تصویر بھی اس لیے بیان فرمائی تھی کہ صوفیا کے عرف کے مطابق اس کی تمثال اور سراپا کو ذہن میں جما اور بسا لیا جائے اور مولانا تھانوی کے مطابق عبادات اور اذکار کے موقعوں پر اس ملعون کے تصور سے اللہ کی طرف توجہ میں یکسوئی پیدا کی جائے؟ صوفیا کے اکابر تنقید سے بالاتر ہیں : صوفیا کی کتابیں ، صوفیا کی جماعتِ تبلیغ کے قطب الارشاد مولانا زکریا کی کتاب فضائل اعمال اور اکابر صوفیا کے معمولات کی روشنی میں صوفی شیخ یا صوفی پیر تنقید سے بالاتر ہے، بے چون و چرا اس کی اطاعت و اتباع فرض ہے، اس کے سامنے مردہ بن کر رہنا مرید کے لیے لازمی ہے، اس کے حکم کی فوری تعمیل ضروری ہے اور اس کی منہیات سے اجتناب میں پس و پیش روا نہیں ، حتیٰ کہ مرید اپنے پیر کو کوئی مشورہ بھی نہ دے، ورنہ اس کی مریدی باقی نہیں رہے گی اور وہ عقاب اور سرزنش کا مستحق قرار پائے گا۔ ایک مثال: برصغیر کے صوفیا میں نظام الدین اولیاء ایک بہت بڑا نام ہیں ، مولانا علی میاں نے اپنی کتاب تاریخ دعوت و عزیمت میں ان کو سلطان المشائخ کا لقب دیا ہے، یہ بھی بہت بڑا پیر اور شیخ بننے سے پہلے مرحلۂ مریدی اور دور طالب علمی سے گزرے ہیں ان کی مجلسوں میں حاضری دے کر ان کے ملفوظات کو ’’فوائد الفواد‘‘ نامی کتاب کی صورت دینے والے امیر علا سنجری نے ان کے دور طالب علمی کا ایک واقعہ خود انہی کی زبانی نقل کیا ہے جس میں چشم بینا اور حق شناس دل کے لیے بڑی عبرت مضمر ہے اس پر میں تبصرہ تو بعد میں کروں گا پہلے اس واقعہ کا خلاصہ بیان کر دینا چاہتا ہوں ، فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں نے بلا قصد و بے اختیار خدمت مبارک حضرت شیخ الاسلام -شیخ کبیر- میں جرأت کی تھی اور وہ اس طرح کہ ایک روز شیخ الاسلام خانقاہ مبارک میں تشریف فرما تھے اور شیخ شہاب الدین عمر سہروردی کی تصنیف: ’’عوارف المعارف‘‘ سامنے تھی جس میں سے فوائد بیان فرما رہے تھے، یہ نسخہ باریک قلم سے لکھا ہوا اور کرم خوردہ تھا، حضرت کو بوجہ
[1] مسند امام احمد: ۳۵۴۶، مسند ابو یعلی: ۲۷۲۰، السنن الکبری للنسائی: ۱۱۲۸۳، ۱۱۲۸۲، کتاب البعث و النشور للبیہقی: ۵۲۶، الدر المنثور للسیوطی: ۱۹۱۶، ۲۳۲۲، ۲۵۰۱، ۲۸۱۹