کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 563
سے مقصود ان کا تعارف ہے اور تعارف کے لیے حُلیے کا بیان ایک خاص اہمیت رکھتا ہے تو آپ کے اس ارشاد پر لب کشائی کی ضرورت نہ پڑتی، مگر آپ نے یہ بات یا استدلال صوفیانہ ’’تصور شیخ‘‘ کے بالاتفاق جائز ہونے پر کیا ہے اور بقول آپ کے: ’’عرف میں تصور شیخ کسی مقدس اور بزرگ کی صورت کو ذہن میں دھیان لانے اور جمانے کا نام ہے، بالخصوص اپنے مرشد کے چہرے کو خیال میں جمانے اور حاصل کرنے کو تصور شیخ کہتے ہیں ۔‘‘ اور مولانا تھانوی کے بقول: ’’صرف توجہ الی اللہ کے وقت توجہ الی اللہ کی استعداد پیدا ہونے کے لیے ’’تصور شیخ‘‘ مطلوب ہے۔‘‘ آپ کے اور مولانا تھانوی کے ان ارشادات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اصل مقصود صرف اپنے شیخ کے تصور، صورت، سراپا اور تمثال وغیرہ کو ذہن میں جمانے کے لیے درکار ہے، کسی اور کے سراپا اور تمثال کو جمانا نہ مقصود و مطلوب ہی ہے اور نہ صوفیا کے ’’عرف‘‘ میں اس کو تصور شیخ کہتے ہی ہیں ، اس تناظر میں احادیث میں جن رسولوں کے اوصاف اور سراپے بیان ہوئے ہیں ان سے صوفیانہ ’’تصور شیخ‘‘ پر استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ اولاً تو تصور شیخ بت پرستی ہے اور نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بت پرستی کی دعوت نہیں دے سکتے تھے؛ آپ کی بعثت تو بت شکنی اور اقامت توحید کے لیے ہوئی تھی۔ ثانیاً: ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام اللہ کے نبی اور رسول تو ضرور تھے اور ان کی نبوت و رسالت پر ایمان ارکان ایمان میں سے ایک ہے، مگر ہمارے نبی محمد بن عبداللہ قریشی ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد وہ سب ہمارے نبی اور رسول نہیں رہے، نیز وہ ہمارے شیخ اور پیر بھی نہیں ہیں ، ایسی صورت میں ان کے بیان کردہ اوصاف سے ایک خاص اور صوفیانہ اصطلاح ’’تصور شیخ‘‘ پر استدلال کرنا کہاں کی دیانت داری ہے جو دراصل بت پرست اور پیر پرست ذہن کی پیداوار ہے۔ ثالثاً: جن احادیث میں آپ کے ذکر کردہ نبیوں اور رسولوں کے اوصاف بیان ہوئے ہیں انہی میں ملعون ’’دجال‘‘ کے اوصاف بھی بیان ہوئے ہیں اور زیادہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں تو کیا آپ کے طرز استدلال سے استفادہ کرتے ہوئے ہم ’’حضرتِ دجال‘‘ کو بھی ’’مقدس اور بزرگ‘‘ مان لیں ؟ چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی صحیح حدیث میں آیا ہے: ((و رأی الدجال فی صورتہ رؤیا عین، لیس رؤیا منام، و عیسی، و موسی و إبراہیم صلوات اللہ علیہم، فسئل النبی صلي اللّٰه عليه وسلم عن الدجال، فقال: أقمر، ہِجَانٌ -قال حسن: قال: رأیتہ فیلمانیًا أقمر ہجانا- إحدی عینیہ قائمۃ کأنہا کوکب