کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 562
میں پیدا ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری میں ہوئی ہے، اس طرح وہ آپ کی وفات کے وقت لگ بھگ ۸ برس کے تھے اور ان کی ہونہاری کے پیش نظر اسی بات کی توقع ہے کہ اس عمر میں ان کے ذہن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیۂ شریفہ مرتسم رہا ہو گا، ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے محبوب نانا تھے اور وہ جلوت و خلوت میں آپ سے چمٹے رہتے تھے۔
امام عبداللہ بن عدی نے الکامل میں اس روایت کی جو سند بیان کی ہے وہ درج ذیل ہے:
ہم سے عمر بن سنان نے بیان کیا، کہا: ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا، کہا: ہم سے جُمیع بن عبدالرحمن عجلی نے ’’املاء‘‘ کراتے ہوئے بیان کیا، کہا: مجھ سے بنو تمیم کے ایک آدمی نے، جو خدیجہ کے شوہر ابوہالہ کی اولاد میں سے تھا اور جس کی کنیت ابوعبداللہ تھی، ابو ہالہ سے، اور انہوں نے حسن بن علی سے رویات کرتے ہوئے بیان کیا، انہوں نے کہا:
’’امام ابن عدی نے یہ روایت بیان کرنے سے پہلے امام بخاری کے استاذ ابو نعیم فضل بن دُکین کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان کرنے والا جُمیع بن عبدالرحمن فاسق تھا۔‘‘[1]
امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ ’’جُمیع بن عبدالرحمن عجلی جمیع بن عمر عجلی کے نام سے بھی معروف ہے، انہوں نے اس کے فاسق ہونے پر امام ابو نعیم کے قول کا ذکر کرنے کے بعد امام ابو داود کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ مجھے اس کے جھوٹا ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘ امام ابن حبان نے جُمیع کو ثقہ لکھا ہے (مگر جرح و تعدیل کا علم رکھنے والے محدیثین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ابن حبان کی جرح اور تضعیف تو حجت ہے، لیکن تنہا ان کی توثیق اور تعدیل ناقابل اعتبار ہے۔‘‘[2]
حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں اس کو ضعیف اور رافضی لکھا ہے۔[3]
امام ابن ابی حاتم نے الجرح و التعدیل میں اس جُمیع کا ذکر تو کیا ہے، لیکن اپنے والد ابو حاتم کے حوالہ سے اس کی جرح و تعدیل کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مجہول ہے۔[4]
رہا ابو عبداللہ جو حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے اس روایت کا راوی ہے، اور جس کا لقب تمیمی ہے تو حافظ ابن حجر نے اس کو مجہول بتایا ہے اور لکھا ہے کہ: کہا جاتا ہے کہ: اس کا نام یزید بن عمر تھا۔[5]
مولانا مدنی نے جو یہ فرمایا ہے کہ: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ وغیرہم علیہم السلام کی شکل و صورت اور لباس وغیرہ کو صحابہ کرام کے سامنے ذکر فرمایا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان اکابر کی صورت اور شکل کو مخاطبین کے دماغ میں تمثل اور جگہ دینا ہے۔‘‘
اگر آپ احادیث میں ، ابراہیم، موسیٰ، اور عیسیٰ علیہم السلام کے بیان کردہ بعض اوصاف کے بارے میں یہ فرماتے کہ ان
[1] ص۴۱۹-۴۲۰، ج۲ ، ترجمہ: ۳۰/۳۵۵۔
[2] ص ۱۵۲، ج ۲
[3] ترجمہ: ۹۶۶۔
[4] ص ۴۶۵-۴۶۶، ج ، ۲ ترجمہ: ۲۲۱۰۔
[5] التقریب، ص: ۵۷۵، ترجمۃ: ۸۲۰۶