کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 561
انسان نے قصداً کیا ہے جو اس کا اختیاری فعل ہے، جبکہ ذہن میں جو خیالات اور وسوسے خود پیدا ہوتے ہیں وہ اختیاری نہیں ہوتے، اس لیے انسان ان کے بارے میں نہ تو جواب دہ ہے اور نہ ان کے وجہ سے اس کی عبادت متاثر ہوتی ہے، پھر بھی ان پر اس طرح قابو پایا جا سکتا ہے کہ عبادت کرنے والا یہ سوچ لے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اس کی یہ سوچ اس کو بڑی حد تک متوجہ الی اللہ بنا دے گی اور اللہ کو دیکھنا چونکہ ناممکن ہے اس لیے اس یقین کو تازہ کر لے کہ اللہ اس کو دیکھ رہا ہے اس طرح اس کی توجہ میں بڑی حد تک یکسوئی پیدا ہو جائے گی وہیں اس کی حرکات میں خشوع و خضوع پیدا ہو جائے گا۔ لیکن توجہ الی اللہ کے وقت ذہن میں بت -شیخ اور پیر- کے تصور سے توجہ میں یکسوئی تو پیدا ہو سکتی ہے، مگر یہ یکسوئی اسی بُت کی طرف ہو گی نہ کہ اللہ کی طرف، اس لیے کہ اللہ کا خیال تو صوفی کے ذہن میں ہے ہی نہیں فتدبروا فہم۔ مولانا تھانوی نے یہ عندیہ دیا کہ جب اس تصور شیخ سے توجہ الی اللہ کی استعداد پیدا ہو جائے تو پھر اس تصور کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، مگر مولانا مدنی نے اس تصور کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا پسندیدہ فعل قرار دے کر اسے سنت بنا دیا۔ یہ ہے بت پرست اور پیر پرست صوفی ذہن کی کرشمہ سازی۔ موصوف نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے منسوب روایت کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’انہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثال اور سراپا کو اپنے ماموں ہند بن ابو ہالہ سے بار بار پوچھ کر اپنے ذہن میں جمایا ہے۔‘‘ جس روایت پر اعتماد کر کے ’’شیخ الحدیث‘‘ نے اتنا بڑا دعویٰ کیا ہے اولاً تو اس میں ’’تمثال اور سراپا‘‘ اور ’’بار بار‘‘ کا ذکر نہیں ہے، ثانیاً یہ روایت بے حد ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے، میں اس کی استنادی حیثیت بیان کرنے سے پہلے اس طویل روایت کا وہ حصہ نقل کر دینا چاہتا ہوں جو ان کے الفاظ میں ان سے منسوب ہے، فرماتے ہیں : ((سألت خالی، ہند بن أبی ہالۃ، و کان وصافا عن حلیۃ النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، و أنا اشتہی أن یصف لی منہا شیئا أتعلق بہ)) [1] ’’میں نے اپنے ماموں ، ہند بن ابو ہالہ سے، جو وصف بیان کرنے میں ماہر تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیے کے بارے میں پوچھا درآنحالیکہ میری خواہش تھی کہ وہ اس کا وہ حصہ مجھ سے بیان کر دیں جس سے میرا لگاؤ ہے۔‘‘ کیا اس عبارت سے بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثال اور سراپا کے بارے میں سوال کرنے کا مفہوم نکلتا ہے؟ یہ تو اس صورت میں جب یہ روایت صحیح ہوتی، اور اب جبکہ یہ بے حد ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے تو یہ ’’تصور شیخ‘‘ کے جواز پر کس طرح قابل استدلال ہو سکتی ہے، ایسی ضعیف روایت تو قابل ذکر بھی نہیں ہے جس کا علم ایک ’’شیخ الحدیث‘‘ کو تو ہونا چاہیے تھا۔ اس روایت کی استنادی حیثیت بیان کرنے سے پہلے یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما شعبان ۳ہجری
[1] شمائل ترمذی، نمبر: ۶