کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 560
مولانا مدنی کی غلط بیانی:
اوپر ’’تصور شیخ‘‘ کے بت پرستی ہونے کے مسئلہ میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ محض دعویٰ نہیں ، بلکہ امر واقعہ کا بیان ہے اسی وجہ سے شاہ عبدالعزیز بھی سید صاحب کی رائے کی تردید نہ کر سکے اور مولانا علی میاں نے تو سیّد صاحب کے ملفوظات، صراط مستقیم سے ایک طویل اقتباس نقل کر کے ان کی رائے کی تائید کر دی ہے۔[1]
لیکن مولانا حسین احمد مدنی نے نہ صرف یہ کہ ’’تصور شیخ‘‘ کو بالاتفاق جائز قرار دیا ہے، بلکہ یہ غلط بیانی بھی کی ہے کہ صحابہ کرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پسند فرمایا ہے۔
مولانا مدنی نے ایک تو ایک نہایت ہی ضعیف حدیث سے اپنے دعوے پر استدلال کیا ہے دوم انہوں نے کچھ الفاظ گھڑ کر راوی کی طرف منسوب کر دیے ہیں ، فرماتے ہیں :
’’ذہن میں اپنے مرشد کی تصویر اور تمثال کو جمانا اور حاصل کرنا بالاتفاق جائز ہے، بلکہ مفید بھی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پسند فرمایا ہے۔ امام حسن نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثال اور سراپا کو اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے بار بار پوچھ کر اپنے ذہن میں جمایا ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ وغیرہم علیہم السلام کی شکل و صورت اور لباس وغیرہ کو صحابہ کرام کے سامنے ذکر فرمایا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان اکابر کی صورت اور شکل کو مخاطبین کے دماغ میں تمثل اور جگہ دینا ہے۔‘‘ (ارواح ثلاثۃ)
اوپر تصوف کی دنیا کے امام تھانوی کی رائے تصور شیخ کے بارے میں نقل کی جا چکی ہے جس کو دوبارہ نقل کر دیتا ہوں ، فرماتے ہیں :
’’تصور شیخ کوئی بالذات مطلوب نہیں ہے، صرف توجہ إلی اللہ کے وقت جو وساوس مجرد کا ہجوم ہوتا ہے وہ قطع وساوس کے لیے ہے اس سے یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے، پھر اس یکسوئی سے توجہ الی اللہ کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے…‘‘
عبارت بالکل واضح اور قابل فہم ہے، مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور دھیان دے، مثلاً سب سے بڑی عبادت اور ذکر ’’نماز‘‘ میں تو اس وقت چونکہ وسوسے اور خیالات بہت پیدا ہوتے ہیں اور اس توجہ میں یکسوئی نہیں رہتی، لہٰذا ان وسوسوں اور خیالات پر قابو پانے اور توجہ الی اللہ پر ذہن کو مرکوز کرنے کے لیے اپنے شیخ اور پیر کی صورت کو تصور میں لے آیا جائے، اس طرح ذہن کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف یکسو ہو جائے گی؟
یہ ہے مولانا تھانوی کا بتایا ہوا ’’تصور شیخ‘‘ کا طریقہ جس کو سیّد احمد نے ’’بت پرستی‘‘ سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ یہ تصور
[1] ص ۱۲۴-۱۲۶، ج ۱