کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 559
’’ولایت اولیا‘‘ -اولیاء کی محبت اور دوستی- یہ ہے کہ سالک اور صوفی دن و رات ریاضت اور مجاہدے کر کے اور صوم و صلوٰۃ اور کثرت نوافل کے ذریعہ اور لوگوں سے کٹ کر اور گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے اس شیخ اور پیر کی یاد کو تازہ کرتا رہے جس کے تصور کو اس نے اپنے دل و دماغ میں بسایا اور جمایا ہے۔‘‘ رہی ’’ولایت انبیاء‘‘ تو اپنے اوصاف، اعمال اور اشغال سے قطع نظر ایک غیر اسلامی اصطلاح ہے جس کا ماخذ کتاب و سنت نہیں ہے؛ دراصل ایک انسان یا تو اللہ کا ولی ہوتا ہے یا شیطان کا، اگر وہ مومن و متقی ہے تو اللہ کا ولی ہے اور اللہ اس کا ولی ہے اور اگر کافر و فاجر ہے تو شیطان کا ولی ہے اور شیطان اس کا ولی ہے: ﴿اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓئُہُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ﴾ (البقرۃ: ۲۵۷) ’’اللہ ان کا دوست ہے جو ایمان لائے وہ ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور وہ جنہوں نے کفر کیا ان کے دوست طاغوت ہیں جو ان کو روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر، حتیٰ کہ والدین اور اپنی جان سے زیادہ محبت کے مطلوب ہونے اور صحت ایمان کی شرط ہونے کے باوجود کتاب و سنت میں اہل ایمان کو نبی یا رسول کا ولی نہیں کہا گیا ہے، اگر کہا گیا ہے تو یہ کہ اللہ، اس کا رسول اور نماز قائم کرنے والے اور زکوٰۃ دینے والے مومنین کے ولی بمعنی دوست اور بہی خواہ ہیں : ﴿اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَo﴾ (المائدۃ: ۵۵) ’’تمہارے دوست تو اللہ، اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جھکنے والے ہیں ۔‘‘ شاہ صاحب کی ان دونوں تعبیروں کی جگہ دوسرے ’’صوفیا‘‘، مثلاً: مولانا تھانوی وغیرہ نے طریق ولایت اور طریق نبوت کی تعبیریں استعمال کی ہیں۔[1] اور یہ دونوں طریقے ایک دوسرے سے مغایر ہیں اور چونکہ صوفیا طریق ولایت پر کاربند ہیں اس لیے تصوف اسلام نہیں اسلام کے متوازی دوسرا دین ہے۔ طریق ولایت یا تصوف کے طریق نبوت کے مغایر ہونے کی وجہ سے سالک یا صوفی کے ’’متبع سنت‘‘ ہونے کی بات محض صوفیانہ ’’بڑ‘‘ ہے، جس کا امر واقعہ سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ۔
[1] شریعت و طریقت، ص: ۴۷