کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 558
’’سیّد صاحب نے دوبارہ عرض کیا کہ میں بہرحال فرماں بردار ہوں اس لیے کہ کسب فیض کی غرض سے آیا ہوں ، لیکن تصور شیخ تو صریح بت پرستی معلوم ہوتا ہے اس خدشے کو زائل کرنے کے لیے قرآن و حدیث سے کوئی دلیل پیش فرما دیں ، ورنہ اس عاجز کو اس شغل سے معاف رکھیں ۔‘‘[1] اس کے بعد مہر صاحب تحریر فرماتے ہیں : ’’شاہ صاحب نے یہ سنتے ہی سیّد صاحب کو سینے سے لگا لیا، رخساروں اور پیشانی پر بوسے دیے اور فرمایا: اے فرزند ارجمند! خدائے برتر نے اپنے فضل و رحمت سے تجھے ولایت انبیاء عطا فرمائی ہے۔‘‘ مہر صاحب آگے لکھتے ہیں : ’’سیّد صاحب نے ولایت انبیاء اور ولایت اولیاء کی تشریح پوچھی تو شاہ صاحب نے فرمایا:جس شخص کو ولایت اولیا عطا ہوتی ہے، وہ دن رات ریاضت و مجاہدات، صوم و صلوٰۃ اور کثرت نوافل میں مشغول رہتا ہے، لوگوں کی صحبت پسند نہیں کرتا، چاہتا ہے کہ گوشۂ تنہائی میں خدا کی یاد سے لذت اندوز ہوتا رہے اسے فاسقوں اور فاجروں کو وعظ و نصیحت سے کچھ سروکار نہیں ہوتا، صوفیہ کرام کی اصطلاح میں اسے ’’قرب بالنوافل‘‘ کہتے ہیں ۔‘‘ ولایت انبیاء کا درجہ جس خوش نصیب کو مرحمت ہو، اس کے دل میں محبت الٰہی اس طرح سما جاتی ہے کہ اس کے سوا کسی چیز کے لیے گنجائش باقی نہیں رہتی وہ ہر وقت بندگان خدا کو نیکی کی راہ پر لگانے کے لیے کوشاں رہتا ہے، مرضیات باری تعالیٰ کے کسی کام میں دنیا داروں کے طعن و ملامت کی پروا نہیں کرتا، وہ توحید کی اشاعت میں بے خوف اور سنن رسول پاک کے احیاء میں بے باک ہوتا ہے، ضرورت پیش آئے تو مخالفوں کے ساتھ مجاہدات میں مال و جان قربان کرتے وقت بھی متأمل نہیں ہوتا وہ للہ فی اللہ تمام محفلوں اور مجلسوں میں جاتا ہے، سب کو وعظ و نصیحت سناتا ہے، اس کارخیر میں جو تکلیفیں اور اذیتیں پیش آئیں ، ان پر صبر کرتا ہے۔ اسے اصطلاح میں ’’قرب بالفرائض‘‘ کہتے ہیں ۔‘‘[2] تبصرہ: شاہ عبدالعزیز نے ولایت اولیاء اور ولایت انبیاء کی جو تشریحات فرمائی ہیں وہ ان کے سوال پر اور ان کے ’’تصور شیخ‘‘ کو صریح بت پرستی قرار دینے کے بعد، اس موقع و محل میں ، غیر اسلامی اور کتاب و سنت پر مبنی نہ ہونے کے ساتھ یہ دونوں اصطلاحیں ، یا یہ دونوں ’’ولایتیں ‘‘ ناقابل ذکر تھیں ، کیونکہ اپنے ذہن و دماغ میں شیخ کے تصور کو جمانے والے کے اندر ’’خدا کی یاد سے لذت اندوز ہونے‘‘ کی استعداد کہاں رہ جاتی ہے اس کا خدا تو اس کا شیخ ہوتا ہے جس کے تصور پر اس کی توجہ مرکوز ہوتی ہے اس تناظر میں شاہ صاحب کو ’’ولایت اولیا‘‘ کی تعریف ان الفاظ میں کرانی چاہیے تھی کہ:
[1] سیّد احمد شہید، ص: ۸۰ [2] ص: ۸۰-۸۱