کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 557
مقصد توجہ الی اللہ کی استعداد پیدا کرنا ہے۔ سیّد احمد بریلوی رحمہ اللہ نے ان دو لفظوں میں تصور شیخ کی اتنی عمدہ اور صحیح تشخیص کر دی تھی کہ فلسفہ و منطق پر عبور رکھنے والے ایک صوفی ’’حدیث داں ‘‘ کو بھی ان کی رائے کو غلط قرار دینے کی جرات اور ہمت نہیں ہوئی اور اس نے اپنی اس مشرکانہ تعلیم و تلقین کے حق میں قرآن و حدیث سے کوئی دلیل دینے کے بجائے حافظ شیرازی کا وہ شعر پڑھ دیا جس میں اطاعت پیر کا حکم دیا گیا ہے اگرچہ وہ صریح معصیت ہی کا حکم کیوں نہ ہو: بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید کہ سالک بے خبر نہ بودز راہ و رسم منزلہا اگر پیر مغاں تم سے کہے تو جائے نماز کو شراب سے رنگین کر دو، کیونکہ سالک مقامات سلوک کی راہ و رسم سے بے خبر نہیں ہوتا۔ شاہ عبدالعزیز نے جس موقع و محل میں یہ شعر پڑھا تھا اس موقع و محل میں اس کا صاف اور واضح مطلب یہ تھا کہ ’’اگر تمہارے خیال میں ’’تصور شیخ‘‘ صریح بت پرستی ہے تو ہو، لیکن تم راہ سلوک طے کرنے کی غرض سے میرے ہاتھ پر بیعت ہونے کے لیے آئے ہو، تو کان کھول کر سن لو، میں تمہارا پیر ہوں اور تم میرے مرید، اس راہ سلوک میں حلال و حرام اور توحید و بت پرستی کی بحثوں میں پڑ کر اپنا اور میرا وقت مت ضائع کرو اور اپنے ذہن و دماغ سے اللہ و رسول کا نام کھرچ دو اور پیر کو ’’مطاع مطلق‘‘ مان کر اس کے حکم پر چلو۔ اس وقت وہی تمہارا نبی بھی ہے اور وہی تمہارا معبود بھی۔ مگر قابل تعریف اور قابل رشک تھا اس نوجوان کا عقیدۂ توحید جس کا نام سیّد احمد بریلوی ہے، یہ کفریہ شعر بن کر بھی وہ ’’ٹس سے مس‘‘ نہ ہوا اور تصور شیخ کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر نہ بدلا اور بقول علی میاں فرمایا: ’’شرک کی کسی طرح ہمت نہیں ہو سکتی، ہاں کتاب و سنت و اجماع امت سے کوئی سند لائیں اور اچھی طرح اطمینان ہو جائے کہ دونوں ایک چیز نہیں تو خطرہ دور ہو سکتا ہے۔‘‘ [1] علی میاں نے سیّد صاحب کا ارشاد انہی الفاظ میں نقل کیا ہے اور حوالہ مخزن احمدی کا دیا ہے، میرے خیال میں انہوں نے نقل واقعہ میں تصرف سے کام لیا ہے، اس لیے کہ ۱۷-۱۸ سال کے ایک نوجوان کے منہ سے، جس نے کوئی خاص دینی تعلیم نہ پائی ہو کتاب و سنت کے الفاظ کا نکلنا تو تعجب خیز نہیں ، لیکن اجماعِ امت کا لفظ اس کے منہ سے نہیں نکل سکتا تھا، یہ ان کے مقام و مرتبے اور عمر سے بہت بڑا ہے۔ اسی مخزن احمدی سے مولانا غلام رسول مہر نے بھی یہ واقعہ نقل کیا ہے جو علی میاں کی عبارت سے مختلف بھی ہے اور زیادہ تفصیلی بھی، اس میں اجماع امت نہیں ہے:
[1] ص ۱۲۱، ج ۱