کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 556
ایسی عبادت ہے جو اس احساس کے ساتھ کی جانی چاہیے کہ عبادت کرنے والا اللہ کو دیکھ رہا ہے اور چونکہ اللہ کی رؤیت اس دنیا میں محال ہے۔ (لَنْ تَرَانِیْ) اس لیے فرمایا کہ کَأَنَّکَ تَرَاہُ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور تمہارا یہ احساس تمہاری عبادتوں کو عاجزی، فروتنی اور تذلل کی تصویر بنا دے گا، اور اس کیفیت اور حالت اور صفت سے عابد کی عبادت کو دوسری جو چیز موصوف بناتی ہے وہ اس کا یہ ایمان ہے کہ اگر میں اپنے رب اور معبود کو نہیں دیکھ رہا تو وہ یقینا مجھے دیکھ رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کو عمدگی سے ادا کرنے کا جو طریقہ بتایا ہے وہی مطلوب بھی ہے اور ممکن بھی اور اس کے سوا کوئی اور طریقہ مردود ہے۔ تصور شیخ بت پرستی ہے: مولانا تھانوی اور مولانا مدنی نے ’’تصور شیخ‘‘ کا جو تعارف کرایا ہے اس کی رو سے یہ نظریہ اور عقیدہ سراسر شرک اور بت پرستی ہے جس سے اللہ کی جانب توجہ میں یکسوئی نہیں ، بلکہ اللہ کے ما سوا ’’شیخ‘‘ کی طرف توجہ میں یکسوئی پیدا ہوتی ہے اور چونکہ یہ تصور شیخ قصداً کیا جاتا ہے لہٰذا ایسا کرنے والا ہر انسان مشرک اور بت پرست ہے۔ چنانچہ اس پر بت پرستی کا حکم لگانے والے ایسے تین بزرگ ہیں جن کی بزرگی، خدا رسیدگی اور صلاح و تقویٰ کے معترف تمام صوفیائے دیوبند ہیں ۔ میری مراد سیّد احمد بریلوی، مولانا ابو الحسن علی ندوی اور شاہ عبدالعزیز ہیں ۔ جیسا کہ میں اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ جب سیّد احمد بریلوی شاہ عبدالعزیز کے ہاتھ پر تصوف کے تین طریقوں : چشتیہ، قادریہ اور تقشبندیہ میں بیعت ہو گئے تو شاہ عبدالعزیز نے انہیں تعلیم سلوک کے ضمن میں حسب معمول تصور شیخ کی تلقین کی اور انہوں نے اس کو بت پرستی قرار دیتے ہوئے نہایت ادب و احترام سے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا: ’’اس میں -بت پرستی میں - صورت سنگی اور قرطاسی ہوتی ہے اور اس میں -تصور شیخ میں - صورت خیالی جو دل میں جگہ پکڑ لیتی ہے اور اس کی طرف توجہ اور اس سے استعانت ہوتی ہے۔‘‘[1] تصور شیخ کے بارے میں سیّد صاحب کی یہ رائے کتنی دقیق اور مبنی برحق تھی، لگتا ہے کہ شاہ عبدالعزیز نے ان سے تصور شیخ کا اسی طرح تعارف کرایا تھا جس طرح مولانا تھانوی اور مولانا مدنی نے اپنے اپنے انداز میں اس کا تعارف کرایا ہے اور سیّد احمد بریلوی کے توحید آشنا ذہن اور توحید کی لذت سے سرشار دل نے فوراً یہ تاڑ لیا کہ یہ تو شیخ کی خیالی پرستش ہے جو دل میں جڑ پکڑنے کے بعد اس کو اسی کی جانب متوجہ رکھے گی اور اسی سے استعانت کرائے گی۔ ’’تصور شیخ‘‘ کے بارے میں سیّد احمد کی یہ رائے کہ: اس میں صورت خیالی دل میں جگہ پکڑ لیتی ہے اور اس کی طرف توجہ اور اس سے استعانت ہوتی ہے‘‘ سونے کے پانی سے لکھی جانے کے قابل ہے اور اس مختصر مگر مبنی برحق قول نے مولانا تھانوی کے اس دعوے کی جڑ ہی کاٹ دی ہے کہ تصور شیخ بالذات مطلوب نہیں بلکہ قطع وساوس کے لیے ہے اور اس کا
[1] سیرت سیّد احمد شہید: ۱/۱۲۱