کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 555
ان صفات کے حامل شیخ کے تصور کو ذہن میں جمائے رکھنے کے بعد کیا خاک اللہ کا خیال آئے گا، اس کی طرف توجہ میں یکسوئی کی بات تو بہت دور ہے۔ میں اپنے اس دعوے پر ایک ایسی دلیل پیش کر دینا چاہتا ہوں جو اس مسئلہ میں ’’شاہد عدل‘‘ ہے۔ مولانا سیّد سلیمان ندوی نے اپنی حیات مستعار کا بہت بڑا مرحلہ سیرت پاک کے زیر سایہ گزارا تھا، وہ سیرت پاک کے مصنف بھی ہیں ، مگر سیرت مصطفوی کی عطر بیز فضاؤں میں بھی توحید کی خوشبو سے ان کے مشام جاں معطر نہ ہو سکے اور ایک صوفی کی چرنوں میں پہنچ کر خالق اور معبود تک کو بھول گئے جس کا انہوں نے اعتراف کیا ہے اور اعتراف ’’سید الادلہ‘‘ ہے، فرماتے ہیں : پاکر تجھے اپنے کو میں بھول گیا ہوں ہر سود و زیانِ دوسرا میں بھول گیا ہوں جس دن سے مرے دل میں تری یاد بسی ہے ہر ایک کو میں تیرے سوا بھول گیا ہوں آتا ہے خدا بھی ترے صدقہ میں مجھے یاد گویا کہ بظاہر میں خدا بھول گیا ہوں [1] عبادات ہوں یا غیر عبادات کوئی بھی انسان اپنے ذہن و قلب کو بیرونی خیالات اور وسوسوں سے پاک نہیں کر سکتا، اگر یہ ممکن ہوتا تو اللہ رب العالمین یا سیّد المرسلین نے اس کا کوئی طریقہ بتایا ہوتا۔ اللہ سے تعلق پیدا کرنے اور مضبوط بنانے کا سب سے عمدہ اور مؤثر ذریعہ عبادات ہیں ، جن کی معراج نماز ہے اور نماز میں عاجزی اور فروتنی کا اظہار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی کی سند عطا کی ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَo﴾ (المؤمنون: ۱،۲) ’’یقینا کامیاب ہو گئے وہ مومنین جو اپنی نماز میں عاجزی کا اظہار کرتے ہیں ۔‘‘ حدیث جبریل میں احسان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ((أن تعبد اللہ کأنک تراہ، فان لم تکن تراہ فإنہ یراک۔))[2] ’’تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘ اللہ کی عبادت کو اس کے لیے جس خشوع و خضوع، جس تذلل اور عاجزی اور جس فروتنی اور خود سپردگی کا مظہر ہونا چاہیے
[1] دین تصوف و طریقت، ص: ۸۱ [2] مسلم: ۱