کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 554
’’کسی صورت کو ذہن میں جمانے اور حاصل کرنے کو لغت میں ’’تصور‘‘ کہتے ہیں ، خواہ وہ صورت جاندار کی ہو، یا غیر جاندار کی، خواہ معمولی شخص کی ہو، یا غیر معمولی شخص کی، کسی بزرگ اور ولی کی یا اپنے مرشد، باپ ماں کی، خواہ اس صورت سے نفع کی امید ہو یا نہ ہو، مگر ’’عرف‘‘ میں تصور شیخ کسی مقدس اور بزرگ کی صورت کو ذہن میں دھیان لانے اور جمانے کا نام ہے، بالخصوص اپنے مرشد کے چہرے کو خیال میں جمانے اور حاصل کرنے کو تصور شیخ کہتے ہیں ۔‘‘[1] مولانا مدنی نے یہ نہیں بتایا کہ ’’تصور شیخ‘‘ ہمہ وقت مطلوب ہے یا کسی خاص موقعہ پر مولانا تھانوی نے اس کو واضح کر دیا ہے، یعنی توجہ الی اللہ کے وقت اس تصور شیخ کی ضرورت پڑتی ہے، تاکہ اس موقع پر ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات اور دل پر ہجوم کرنے والے وسوسوں پر قابو پا کر اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کو مبذول اور یکسو رکھا جا سکے۔ ایک سوال: دونوں بزرگوں کے نزدیک تصور شیخ سے کسی عام انسان، دوسرے لفظوں میں کسی غیر صوفی بزرگ کا تصور مقصود نہیں ہے، بلکہ کسی ایسے صوفی بزرگ کا تصور مقصود ہے جس کی بزرگی اور تقدس پر اہل تصوت کا اتفاق ہے، اور جس کا جامع لقب ’’شیخ‘‘ ہے اور جو صوفی اپنے ذہن میں کسی شخص کا تصور جمائے وہ اس کا پیر اور مرشد ہو، اور مولانا تھانوی کے نزدیک اس تصور کا موقع و محل اور وقت وہ ہے جب سالک اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ مولانا تھانوی نے اللہ کی طرف یکسوئی کے لیے تصور شیخ کو ’’علاج بالضد‘‘ بتایا ہے اور اس کا سبب یہ بتایا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ غیر مرئی ہے اس لیے اس کا تصور تو کیا نہیں جا سکتا، البتہ شیخ کے مرئی اور محبوب ہونے کی وجہ سے اس کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے اور اس سے اللہ کی طرف یکسوئی بھی ہو سکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ سالک اپنے ذہن میں توجہ الی اللہ کے وقت، مثلاً نماز پڑھتے ہوئے جو افضل ترین ذکر ہے اپنے شیخ اور پیر کی صورت کو جماتا ہے اور اس کو تصور میں لاتا ہے، جو شیخ اس کے عقیدے کی رو سے انبیاء کے برابر، بلکہ ان سے افضل ہے اور اکابر صوفیا کے اعترافات اور تصریحات کی رو سے وہ ان تمام صفات سے موصوف ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں ۔ مثلاً وہ عالم الغیب ہے، غیر مستقل رب ہے، مافوق الاسباب امور میں مستعان ہے، اپنی زندگی اور موت دونوں حالتوں میں امور کائنات میں صاحب تصرف ہے، وہ بیماریوں سے شفا دیتا ہے، اولاد دیتا ہے، آفات و مصائب میں مبتلا ہو جانے والے اپنے مریدوں کو ان کے آفات و مصائب سے نجات دیتا ہے اور وہ اپنے مریدوں کے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات تک سے بروقت واقف ہو جاتا ہے اور ’’پیر رومی‘‘ کے مطابق جس صوفی مرید کی نگاہ میں اللہ اورپیر کا ایک ہی مقام اور درجہ نہ ہو وہ مرید نہیں ہے۔
[1] ارواح ثلاثۃ