کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 553
حلقوں میں گردش کرنے والی بعض جھوٹی روایتوں کا ذکر بھی کر دیا ہے اور جن صوفیا نے ان سے شیخ کے مقام و مرتبہ پر استدلال کیا ہے اس کی غلطی بھی واضح کر دی ہے، اب تصور شیخ کے تعارف کا مرحلہ ہے، کیونکہ جب تک کوئی چیز واضح نہ ہو اس وقت تک اس کے صحیح یا غلط اور مقبول یا غیر مقبول ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ تصور شیخ کا تعارف میں ایک ایسے صوفی کے الفاظ میں بیان کرنا چاہتا ہوں جو برصغیر کے صوفیا میں سرفہرست ہے اور سیّد سلیمان ندوی ثم صوفی کے الفاظ میں جو تصوف کا ’’مکتشف اعظم‘‘ تھا، میری مراد مولانا تھانوی سے ہے، موصوف تصور شیخ کے خدوخال واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ ’’شیخ کی صورت اور اس کے کمالات کے تصور کرنے سے اس سے محبت پیدا ہو جاتی ہے اور نسبت قوی ہوتی ہے اور قوتِ نسبت سے طرح طرح کی برکات حاصل ہوتی ہیں … اصل مقصود تصور حق تعالیٰ کا ہے، مگر چونکہ اللہ تعالیٰ مرئی نہیں ہے، اس لیے جن لوگوں کی قوتِ فکریہ ضعیف ہوتی ہے ان کو یہ تصور جچتا نہیں ، کیونکہ ان کے ذہن میں خیالات بہت آتے ہیں ، ایسے لوگوں کو یکسوئی حاصل کرنے کے لیے ’’تصور شیخ‘‘ تجویز کیا گیا ہے، کیونکہ یہ علاج بالضد ہوتا ہے، یعنی ایک خیال کو دفع کرنے کے لیے دوسرے خیال کو ذہن میں جمایا جائے گا، خواہ وہ کوئی خیال ہو، پس ان خیالات مختلفہ کے دفع کرنے کے واسطے ہر دیکھی ہوئی چیز کا تصور کافی ہے جس پر خیال جم سکے، لیکن ان سب خیالات میں سے شیخ کا تصور انفع ہے کہ وہ محبوب ہونے کی وجہ سے ذہن میں زیادہ جمے گا اس لیے دفع خیالات میں زیادہ مؤثر ہو گا۔ تصور شیخ کوئی بالذات مطلوب نہیں ہے، صرف توجہ الی اللہ کے وقت جو وساوس مجرد کا ہجوم ہوتا ہے، وہ قطع وساوس کے لیے ہے، اس سے یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے، پھر اس یکسوئی سے توجہ اِلی اللہ کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے، پھر اس استعداد کو مقصود میں صرف کرنا اور جب مقصود حاصل ہو جائے تو پھر ان ہیئات و قیود کی ضرورت نہیں رہتی۔‘‘[1] مولانا تھانوی تصوف کے بنیادی، بلکہ عقائدی مسائل کے بیان میں قدرے محتاط الفاظ استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کا نقطۂ نظر سمجھنے میں دقت ہوتی تھی، ان کے برعکس مولانا حسین احمد مدنی صاف گو تھے، یوں تو مولانا تھانوی کا علمی مقام و مرتبہ مولانا مدنی سے بلند تھا اور تصوف کے رموز و نکات بھی وہ مدنی سے بہتر سمجھتے تھے، پھر بھی مولانا مدنی کے مریدوں اور عقیدت مندوں کا حلقہ بھی کافی وسیع تھا اور اکابر صوفیائے دیوبند کے نزدیک ان کے صوفیانہ اقوال سند کا درجہ رکھتے تھے اس لیے تصور شیخ پر کوئی تبصرہ کرنے سے قبل یہ مناسب ہے کہ اس مسئلہ میں ان کا نقطۂ نظر بھی بیان کر دیا جائے، فرماتے ہیں :
[1] شریعت و طریقت، ص: ۲۸۵۔