کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 552
اور معنی کے اعتبار سے ان کی ایک صحیح حدیث: ((اَلْعُلَمَآئُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَائِ)) ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔‘‘ سے تقویت اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿فَاسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo﴾ (النحل: ۴۳) ’’اگر تم نہ جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔‘‘ سے تائید ہوتی ہے۔ [1] شیخ عالم کا ہم معنی نہیں ہے: ملا علی قاری کا یہ استدلال چند وجوہ سے بے محل اور قابل ردّ ہے: ۱۔ قرآن و حدیث میں اہل حق کے ضمن میں شیخ کا ذکر نہیں آیا ہے۔ ۲۔ جرح و تعدیل کے علماء کے نزدیک ’’شیخ‘‘ عدالتِ راوی کا سب سے پست درجہ ہے۔ ۳۔ زبان اور لغت میں شیخ ’’عالم‘‘ کا مترادف اور ہم معنی نہیں اور امر واقعہ کے اعتبار سے علم اور اتباع سنت سے تہی دامن ہے۔ ۴۔ قرآن و حدیث کے مطابق علماء اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے لوگ ہیں ، جبکہ صوفیا کا شیخ مطاع مطلق ہوتا ہے، وہ شریعت سازی کرتا ہے، وہ اپنے مریدوں سے اللہ و رسول کی نہیں اپنی اطاعت اور اتباع کرواتا ہے۔ ۵۔ انبیاء کی میرات ان کی سنت تھی اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث بھی سنت ہے، لہٰذا آپ کے وارث علماء وہ ہیں جو آپ کی سنت کا علم رکھتے ہیں ، اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کی اتباع کرتے ہیں ، جبکہ صوفیوں کا شیخ اپنے ذوق و رائے کا پیرو ہے اور اپنے مریدوں کو اسی راہ پر چلاتا ہے۔ ۶۔ قرآنی آیت میں ’’اہل الذکر‘‘ سے مراد علمائے اہل کتاب ہیں اور یہ سیاق آیت اور شان نزول کے اعتبار سے اور لفظ کے عموم کے اعتبار سے کتاب و سنت کا علم رکھنے والے مراد ہیں ۔ ۷۔ حدیث اور قرآنی آیت میں علماء کو انبیاء کے مقام پر فائز نہیں کیا گیا ہے، ان کو اللہ تعالیٰ کی صفات سے موصوف کرنا تو دور کی بات ہے، جبکہ صوفیا کے نزدیک شیخ قولاً نبی کا مقام و درجہ رکھتا ہے اور عقیدۃً اور عملاً اللہ تعالیٰ کی صفات سے موصوف ہوتا ہے تصوف کی کسی بھی کتاب میں ’’نام نہاد اولیاء اللہ‘‘ کی سیرتوں کا مطالعہ کر لیجیے میرے اس دعوے کے بے شمار دلائل مل جائیں گے۔ ۸۔ صوفیا کے مقامات سلوک: فنا و بقا، جمع و فرق، اذکار و اوراد اور اشغال و اعمال اور حقائق کے عنوان سے ان کی اصطلاحیں ان کی خانہ ساز ہیں کتاب و سنت سے ماخوذ نہیں ۔ تصور شخص کا تعارف: میں نے اوپر ’’شیخ‘‘ کے بارے میں صوفیا کے عقیدے کو تفصیل سے بیان کر دیا ہے اور اس سے متعلق صوفیا کے
[1] الاسرار المرفوعۃ، ص: ۲۳۲، نمبر: ۲۵۳