کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 551
اوراد و اذکار اور اعمال و اشغال میں اسلام کے ساتھ، فلسفہ، کلام، ہندو ازم، بدھ ازم اور رہبانیت اور باطنیت کی آمیزش ہے ایسی صورت میں ان کو اپنے باطل اور غیر اسلامی عقائد، اعمال اور ریاضتوں کو مقبول عام بنانے کے لیے جھوٹی روایتوں کا سہارا لینا پڑا اور ان جھوٹی روایتوں کو لوگوں سے منوانے کے لیے انہوں نے حدیث کشفی کی اصطلاح ایجاد کر لی اور اپنے مقصد کی ہر بے بنیاد، بے اصل، جھوٹی اور من گھڑت روایت کو یہ کہہ کر اپنے حلقوں میں پھیلا دیا کہ اگر محدثین کے نزدیک یہ حدیث صحیح نہیں ہے تو نہ ہو اہل کشف کے نزدیک تو صحیح ہے۔ امداد اللہ تو خیر ’’ان پڑھ‘‘ تھے، جو لوگ کتاب و سنت کا علم رکھتے تھے یا رکھتے ہیں ، اگرچہ ان کا یہ علم کتابی ہی ہو، باطل روایتوں کو بذریعہ کشف صحیح قرار دینے میں جاہلوں سے بھی آگے ہیں ، آخر کون ہے جس کو سیوطی، قسطلانی، زرقانی اور شعرانی کے علمی مقام و مرتبے اور حدیث دانی کا اعتراف نہیں ہو گا، مگر یہ کشف ہی کی کرشمہ سازی تو ہے جس نے ان کی کتابوں کو جھوٹی روایتوں سے بھر دیا ہے اور عبدالوہاب بن احمد شعرانی قلقشندی تو اسلامی علوم کے جامع تھے، فہم نصوص میں بھی اعلیٰ مقام پر فائز تھے اور برصغیر کے صوفیا کے برعکس حدیث کا گہرا علم بھی رکھتے تھے اور محدثین کا بے حد احترام بھی کرتے تھے، بایں ہمہ بذریعۂ کشف جھوٹی روایتوں کو صحیح کہہ کر ان سے استدلال میں کسی معمولی صوفی سے پیچھے نہیں تھے۔
جھوٹی روایتوں کی تصحیح کا ایک اور انداز:
اگر حاجی امداد اللہ نے اُن جھوٹی روایتوں کو، جن میں صوفیوں کے شیوخ اور پیروں کو انبیاء کا مقام دے دیا گیا ہے حدیث کشفی کہہ کر صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تو تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ یہی ان کا مبلغ علم بھی تھا اور عقیدہ بھی، مگر ملا علی قاری تو عالم حدیث بھی تھے اور فقیہ بھی، پھر انہوں نے ایسا دعویٰ کیوں کر ڈالا کہ ایک طرف تو ابن تیمیہ اور سخاوی کی تائید کرتے ہوئے یہ اعتراف بھی کر لیا کہ یہ روایتیں صحیح اور ثابت نہیں ہیں ، اور اسی کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کر بیٹھے کہ معناً یہ صحیح ہیں ، اور اس پر بس نہیں کیا، بلکہ ان کی صحتِ معنی پر ایک ایسی صحیح حدیث اور قرآن پاک کی ایک ایسی آیت سے استدلال کرنے سے بھی باز نہیں رہے جن کا مذکورہ جھوٹی روایتوں سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے، اسی طرح اہل کتاب کے اس فریق میں اپنا نام لکھوا لیا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَہُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۱۴۶)
’’وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے اس کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور درحقیقت ان میں سے کچھ لوگ حق کو جانتے بوجھتے چھپاتے ہیں ۔‘‘
چنانچہ موصوف حاجی امداد اللہ کی ذکر کردہ روایتوں اور ان کی ہم معنی دوسری روایتوں پر عدم صحت اور عدم ثبوت کا حکم لگانے کے بعد تحریر فرماتے ہیں :