کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 550
امانت دار، متبع سنت، اللہ و رسول کے شیدائی اور فضائل اخلاق سے موصوف انسان چشم فلک نے نہیں دیکھے ہیں ۔
اپنے ان عقائدی اور عملی اوصاف کے علاوہ محدثین قوت حافظہ، فہم دین اور قرآن و سنت کے نصوص سے مسائل اور احکام کے حسن استنباط کے جس منفرد اور امتیازی مقام پر فائز تھے اس کا اعتراف ان کے مخالفین کو بھی ہے۔
لہٰذا کسی حدیث پر صحت و سقم کا حکم لگانے کا حق صرف محدثین کی پاکباز اور باصلاحیت جماعت کو حاصل تھا، نہ کہ خواہشات نفس کے پیرو، دینی نصوص کی معنوی تحریف کرنے والوں اور اپنی خود ساختہ عبارتوں کو حدیث قرار دینے والوں کو ہے۔
حاجی امداد اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے کے موقع پر خواب دیکھنے والے کے واردات قلبی کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ یہ یا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے‘‘ تو عرض ہے کہ اولاً تو خواب کے موقع پر کسی کے دل میں کوئی خیال پیدا ہی نہیں ہوتا اور وہ جو کچھ دیکھتا ہے اگر وہ حق و صدق ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اگر وہ جھوٹ، فریب نفس اور شکم کے ابخرات کا نتیجہ ہے تو حدیث کے مطابق پہلے کو رویائے صالحہ یا صادقہ کہتے ہیں یعنی صالح اور سچے خواب اور دوسرے کو ’’حلم‘‘ کہتے ہیں ، یعنی خواب پریشاں ، ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((الرؤیا الصالحۃ من اللہ و الحلم من الشیطان فاذا حلم احدکم، فلیتعوذ منہ و لیبصق عن شمالہ، فإنہا لا تضرہ))
’’اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہے اور خواب پریشان شیطان کی طرف سے، لہٰذا اگر تم میں سے کوئی خواب پریشاں دیکھے تو اس سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور بائیں طرف تھوک دے، اس طرح یہ خواب اس کے لیے باعث ضرر نہیں ہو گا۔‘‘[1]
اور یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی شکل، حلیے اور ہیئت میں خواب میں دیکھنا رویائے صالحہ اور صادقہ ہے اور یہ خواب اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے جس میں شیطان کی خیال آرائی، صورت گری اور تمثیل نہیں ہوتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود سے کسی کے خواب میں نہیں آتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ’’رفیق اعلیٰ‘‘ میں موجود آپ کی روح پاک کو آپ کے حقیقی جسم کے عین مطابق جسم عطا کر دیتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ کسی کو خواب ہی دکھاتے ہیں اور نہ کسی کے دل میں کوئی خیال ہی پیدا کرتے یا ڈالتے ہیں ۔ حدیث کشفی صوفیا کی اختراع ہے:
ہمارے اسلاف حدیث کشفی سے واقف نہیں تھے، یہ تو صوفیا کی ایجاد ہے، صوفیا سے میری مراد دوسری صدی ہجری کے بعد پیدا ہونے والے وہ مدعیان زہد و توکل ہیں ، جن کے عقائد، عبادات، زہد و توکل، نام نہاد روحانی ریاضتوں ،
[1] بخاری: ۶۹۸۶، مسلم: ۲۲۶۱