کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 55
ہونے کا ثبوت لازمی ہے اور یہ ثبوت صرف نقاد حدیث اور راویوں کے حالات سے واقف محدثین کی کتابوں ہی سے مل سکتا ہے، متکلمین اور فقہاء کی کتابوں سے نہیں ۔ اس طرح جب ایک عدل اور حافظ تابعی کسی دوسرے تابعی یا تبع تابعی سے اپنی سند سے کوئی حدیث بیان کرتا تو صحابی کی طرح وہ بھی کہتا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: حالانکہ وہ حدیث اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے براہ راست نہیں سنی ہوتی، لیکن چونکہ اس نے وہ حدیث کسی صحابی یا عدالت اور حفظ سے موصوف تابعی سے سنی تھی اس لیے اس کے حدیث رسول ہونے کا اسے علم الیقین تھا۔ یہ سلسلہ یوں ہی تبع تبع تابعی تک چلتا رہا اور سلسلہ رواۃ کے عدل اور ثقہ راویوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ہر ایک یہی کہتا رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور ہر کوئی اپنی اس خبر یا روایت یا تعبیر میں ’’صادق القول‘‘ تھا۔ حدیث واحد کی ظنیت پر غلط استدلال: میں نے اوپر یہ دکھایا ہے کہ حدیث خبر کی ہم معنی نہیں ، بلکہ اس کی ایک صفت میں اشتراک کی وجہ سے خبر ہے، یعنی جس طرح خبر ایک شخص سے دوسرے کو منتقل کی جاتی ہے، دوسرے سے بیان کی جاتی ہے، اسی طرح حدیث بھی بیان ونقل کے مراحل سے گزری ہے، اس تناظر میں ہر حدیث تو خبر ہے، لیکن ہر خبر حدیث نہیں ہے، یعنی دونوں میں عموم وخصوص کا تعلق ہے، اس فرق کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے بعض لوگ صحیح نصوص سے غلط استدلال کر بیٹھتے ہیں ، مثال کے طور پر ’’إتحاف النبیل بأجوبۃ أسئلۃ المصطلح والجرح والتعدیل‘‘ کے مصنف شیخ ابو الحسن مصطفی بن اسماعیل نے اپنے اس دعویٰ: خبر واحد سے یقین نہیں حاصل ہوتا، کی صحت پر دو صحیح حدیثوں سے استدلال کیا ہے اور غلط استدلال کیا ہے۔ (۱)… ((عن اُم سلمۃ، عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم قال: إنما أنا بشر، وإنکم تختصمون إلیَّ، ولعل بعضکم أن یکون ألحن بحجتہ من بعض، وأقضی لہ علی نحو ماأسمع، فمن قضیت لہ من حق أخیہ شیئاً فلایأخذہ، فإنما أقطع لہ قطعۃ من النار۔)) ’’ام سلمہ (ام المؤمنین) رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں تو محض ایک انسان ہوں اور تم لوگ میرے پاس اپنے معاملات خصومت لے کر آتے ہو اور شاید تم میں سے بعض اپنی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ ماہر ہو اور میں جیسا کچھ اس سے سنوں اس کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ کر دوں ، تو جس کے لیے میں اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کر دوں وہ اسے نہ لے، کیونکہ اس طرح میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹتا ہوں ۔‘‘ [1]
[1] بخاری: ۷۱۶۹، مسلم: ۱۷۱۳