کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 548
۴۔ کسی کے سر پر لپٹا ہوا اور تر عمامہ رکھ کر اس کے کردار اور سلوک پر اپنی رضا اور اطمینان کا اظہار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی نہیں کیا ہے اور عمامہ کی فضیلت میں کوئی ایک بھی صحیح حدیث موجود نہیں ہے یہ صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھار عمامہ باندھا ہے، مگر عمامہ باندھنا آپ کا شعار کبھی نہیں تھا اور نہ صحابہ کا۔
۵۔ ہجرت کے موقع پر، جبکہ مشرکین آپ کی کھوج اور تلاش میں تھے آپ نے اپنی اور اپنے رفیق سفر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لیے وہی مادی تدابیر اختیار فرمائیں جو اس طرح کے مواقع پر اختیار کی جاتی ہیں ، کیوں نہ آپ نے انہی میں سے ایک شخص کی شکل اختیار کر لی اور آسانی سے اور بلاخوف و خطر مکہ سے مدینہ پہنچ گئے؟ صوفیا اور حاجی امداد اللہ کے پیرو کہہ سکتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی مشرک کی صورت کس طرح اختیار کر سکتے تھے؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہ حالت اضطرار تھی جس میں آپ نے ایک مشرک عبداللہ بن اریقط کو دلیل راہ بنایا تو کیا اس حالت میں اپنی صورت نہیں بدل سکتے تھے؟ دوسرا جواب یہ ہے کہ مشرکین مکہ تو صرف عبودیت اور الوہیت میں شرک کرتے تھے، مگر ربوبیت میں شرک نہیں کرتے تھے، جبکہ صوفیا توحید کی کوئی قسم جانتے تک نہیں ہیں اور ان کے نزدیک ’’موحد‘‘ وہ ہے جو وحدۃ الوجود کا قائل ہو حاجی امداد اللہ تو وحدۃ الوجود کے بہت بڑے داعی اور علم بردار تھے اور ان کے نزدیک ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا سب سے عمدہ ترجمہ ہے: اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں ‘‘ ۔ فرماتے ہیں : کلمہ لا الہ الا اللہ کے باعتبار مراتب مردمان تین معنی ہیں : لا معبود، لا مطلوب، لا موجود الا اللہ ’’اللہ کے سوا کوئی مطلوب نہیں اور اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں ، اور یہ آخری سب مراتب سے اعلیٰ ہے۔[1]
موصوف کا یہ دعویٰ قرآن کی تکذیب ہے، کیونکہ اس میں اولاً تو اسی بات کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے اس کے علاوہ کسی اور توحید کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔ ثانیاً: توحید الوہیت یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔‘‘ تمام انبیاء کی توحید تھی اور اصلاً اسی کی دعوت دینے کے لیے وہ مبعوث کیے گئے تھے اور اسلام کے سارے احکام اسی توحید کے گرد گھومتے ہیں ۔ تو کیا یہ توحید کا سب سے ادنیٰ مرتبہ ہے؟
خواب ماخذ شرع نہیں ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے یہ دین تکمیل پا چکا تھا، لہٰذا آپ خواب میں اس شخص کو کوئی شرعی حکم دیتے ہیں اور نہ دے سکتے ہیں جو آپ کو خواب میں دیکھتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ خواب سے جو کچھ معلوم کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے کسی بندے کی استقامت فی الدین، اس کی دینی جد و جہد اور اس کے کردار پر اپنے رسول کی رضامندی، یا اس کے کسی غلط رویہ پر تنبیہ کر دے، وغیرہ۔
حاجی امداد اللہ نے حدیث ’’من رآنی فقد رأی الحق‘‘ جس نے مجھے دیکھا درحقیقت اس نے مجھے ہی دیکھا،
[1] امداد المشتاق، ص: ۴۵