کتاب: حدیث کا شرعی مقام جلد دوم - صفحہ 547
اس کتاب میں مدعی ہیں : ’’حاجی امداد اللہ نے جب منبر اور روضہ شریفہ کے درمیان مراقبہ فرمایا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مقدس سے بصورت حضرت میانجیو صاحب قدس سرہ نکلے اور لپٹا ہوا تر عمامہ غایت درجہ شفقت سے ان کے سر پر رکھ دیا اور کچھ نہ فرمایا اور واپس تشریف لے گئے۔‘‘[1] میں نے اس عبارت کو قابل فہم بنانے کے لیے اس کے الفاظ میں کچھ تقدیم و تاخیر کر دی ہے، یوں تو ایک سلیم الفطرت اور صحیح العقیدہ انسان اس عبارت کو پڑھتے ہی ’’من گھڑت‘‘ قرار دے دے گا، لیکن اتمام حجت کے طور پر میں اس کی نکارت کو لفظوں میں بیان کر دینا چاہتا ہوں : ۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن و حدیث کی تصریحات کے مطابق بشر تھے اور بحکم بشریت اپنی شکل بدلنے اور کسی دوسرے انسان کی شکل اختیار کرنے کی قدرت نہیں رکھتے تھے، پھر کس طرح ایک صوفی میانجیو کی شکل اختیار فرمائی جو اس وقت ہندوستان میں موجود تھا؟ ۲۔ صحیح حدیث اس امر میں قاطع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک قیام قیامت کے موقع پر پھٹے گی اور آپ اس سے نکلیں گے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((أنا سید ولد آدم یوم القیامۃ، و اول من ینشق عنہ القبر، و أول شافع و أول مشفع)) [2] ’’میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا، اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس کی قبر کھلے گی اور پہلا شفاعت کرنے والا اور پہلا وہ شخص ہوں گا جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘ ۳۔ حاجی امداد اللہ کے اس خیالی دعوے کے مطابق جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر سے نکلے تھے، کیا اس وقت مسجد نبوی نمازیوں سے خالی تھی کہ کسی اور نے آپ کو قبر سے باہر نکلتے نہیں دیکھا؟ پھر قبر سے آپ کے باہر نکلنے کے لیے جو شگاف درکار تھا وہ کس طرح بنا اور کس طرح درست ہوا کہ کسی نے نہیں دیکھا؟ پھر آپ نے اپنی صورت اور شکل میں قبر مبارک سے باہر آنے کے بجائے ایک صوفی کی صورت کیوں اختیار کیا جو تصوف کے چاروں طریقوں : چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ پر تو عمل پیرا تھا، مگر اس کا شمار ان علمائے اسلام میں نہیں ہوتا جنہوں نے اسلام کی خدمت کے میدان میں کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہو؟ یہ سارے سوالات اپنا تشفی بخش جواب نہ رکھنے کے باعث اس دعوے کی تکذیب کرتے ہیں۔
[1] ص: ۲۴ بحوالہ تذکرہ حاجی امداد اللہ، ص: ۲۳ [2] مسلم: ۲۲۷۸